قسط نمبر 2 اسلام بطور نظام حیات مجلس شوری اور خلافت مرکز صاحب عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی ریاست کا آغاز ہی باقاعدہ طور...
قسط نمبر 2 اسلام بطور نظام حیات
مجلس شوری اور خلافت مرکز
صاحب عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی ریاست کا آغاز ہی باقاعدہ طور آئین اور دستور کی اقامت سے کیا اور اسلامی ریاست میں باقاعدہ طور پر شوری کی بنیاد رکھی، شوری ہی اسلامی ریاست کا مرکزی بنیادی ادارہ ہے اور پھر اسی شوری سے حاکم(خلیفہ) اور گورنر اور مشیر و وزیر یعنی خلافت مرکز قائم ہوا اور خلافت مرکز میں آئین اور دستور کے مطابق معاملات انجام دئیے جاتے تھے اور آئین کے مطابق ہی تمام اختیارات کا سر چشمہ صاحب عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بہت سارے اختیارات صوبائی اور مقامی حاکموں کو منتقل کر رکھے تھے ۔
صاحب عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی فلاحی ریاست کا آغاز فرما تے ہی اسلامی ریاست کے بنیادی اصولوں کے نفاذ کے لیے مسجد نبوی کی صورت میں فورا ایک مرکزی ادارے کی بنیاد رکھی ، جس میں تمام فیصلے وحی اور اہل الرائے لوگوں کے مشورے سے انجام پانے لگے گویا یہ مسلمانوں کآ مرکزی دارالشوری(قومی پارلیمنٹ) تھا ، جس میں مسلمان اور ان کے رہنما اہل الرائے باہم مشاورت کےلیے مجتمع ہوتے تھے اور پالیسی وضع کرتے تھے اور خلافت مرکز اس پر بنیادی اداروں کے ذریعے عمل کرواتا تھا یہیں معاہدے ہوتے تھے ، سفارتیں روانہ کی جاتی تھی ، وفود کا استقبال کیا جاتا تھا ، دعوتی خط جاری کیے جاتے تھے ، یہیں عام و خاص مسلمان جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کرتے تھے اور انفاق فی سبیل اللہ کا حکم بھی سنایا جاتا تھا ، یہیں پر اموال و غنائم اکٹھے بھی ہوتے تھے اور تقسیم بھی کیے جاتے تھے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تمام نظریاتی، سیاسی، انتظامی، معاشی اور معاشرتی معاملات زندگی یہیں پر طے پاتے تھے ( بعدازاں خلافت راشدہ کے دور میں اداروں کی وسعت اور تقسیم کاعمل انجام پایا)۔
قصہ مختصر یہیں پر ریاست کا مرکزی ادارہ دار الشوری کام کر رہا تھا اور پھر شوری کے فیصلوں کے لیے خلافت کا مرکزی سیکرٹریٹ(خلافت مرکز) بھی یہی تھا جو بعد ازاں خلافت کے زمانوں میں مختلف جگہ منتقل ہوتا رہا ۔
مجلس شوری میں کتاب و سنت پر مبنی فقہ(احکام شریعت) یعنی عقائد و نظریات ، معاملات زندگی ، زندگی کے تمام پہلوؤں پر ضابطہ اخلاق اور عبادت کی جزیات و تفصیلات کی عملی بنیادوں تشکیل و ترتیب اور تقلید کو عمل میں لایا جاتا تھا گویا شوری قانون سازی کا عمل انجام دیتی تھی اور تمام عوام اور ادارے شوری کے مقلد( تقلید کرنا) تھے)۔
اسلامی ریاست میں بنیادی ادارے
صاحب عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی فلاحی ریاست میں بنیادی اداروں کی بنیاد با ضابطہ طور پر خود رکھی جو اگلے وقتوں میں یعنی خلافت راشدہ میں باقاعدہ پنپ اور پھل پھول کر اپنی تکمیل کو پہنچی ؛ یوں ہم کو سیرت کی روشنی میں تین سطحوں ( مقامی ، صوبائی اور مرکزی ) پہ نظام حکومت اور چھ بڑے بنیادی اداروں کا تصور ملتا ہے آئیے اب انکو مرحلہ وار سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں
شوری سے پیدا ہونے والی نمائندہ اسلامی فلاحی حکومت خلافت کے تحت خلیفہ اور اس کی کابینہ اور صوبائی سطح پہ والی (گورنر) اور ان کے ماتحت حکام کا نظام تھا اور مقامی نظم و نسق کی سطح پر ریاستی ڈھانچہ شیوخ قبائل ، نقیبان شہر ، اور ان کے نیچے ان کا نظامی اور حکامی عملہ موجود ہوتا تھا۔ اسطرح سیرت کی روشنی میں بنیادی سطح پر کام کرنے والے 6 نمائندہ اداروں کی داغ بیل نظر آتی ہے:
1۔ اقتصادیہ 2۔ انتظامیہ 3۔ دفائیہ 4۔ ابلاغیہ 5۔ خفائیہ
6۔ عدلیہ
اقتصادیہ:
اسلامی اقتصادی پالیسی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مواخات کی اقتصادی حکمت عملی اور فرمان پاک سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے معاشرے سے غربت کے خاتمے کا فرمان جاری کیا اور رہنمائی فرمائی کہ غربت کا وجود خرابی ایمان کا باعث بنے گا۔
صاحب عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اقتصادی نظام کا آغاز بیت المال سے فرمایا اور بتدریج مالیاتی نظام کا ارتقاء و فروغ ہوتا گیا اور ابتدائی طور پر اسلامی ریاست کے ذرائع آمدن درج ذیل تھے۔
1۔ زکوت 2۔غنائم 3۔زراعت 4۔متفرق ذرائع (بازار اور دوکانوں پر ٹیکس کا نظم +ارکاز+ملکی اور غیر ملکی تجارت وغیرہ وغیرہ
کتابیات:
ابن ہشام ، السیرت النبویہ ، ابو داود ، السنن الاکبری
سخاوی ، ابن کثیر
تحریر و تحقیق: پروفیسر عبدالمنان ہل
( جاری ہے )