Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

محترمہ سیدہ غلام کبریٰ المعروف بی بی پڈھیار ایک یادگار کردار اور تحریر

🍁 محترمہ سیدہ غلام کبریٰ المعروف بی بی پڈھیار ایک یادگار کردار 🍁 ☜ ہر دینِ فطرت نے مرد و زن کو (انیس بیس کے فرق سے) معاشرتی سطح پر برابر ک...

🍁 محترمہ سیدہ غلام کبریٰ المعروف بی بی پڈھیار ایک یادگار کردار 🍁

☜ ہر دینِ فطرت نے مرد و زن کو (انیس بیس کے فرق سے) معاشرتی سطح پر برابر کے حقوق و فرائض کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ لیکن بوجوہ صدیوں سے ہر معاشرے پر غلبہ مرد ہی کا رہا ہے۔ جہاں جہاں اس غلبے کو خواتین نے (بالخصوص سیاست و حکمرانی کے میدان میں) للکارا ہے، وہاں وہاں پر خواتین نے اپنی ذہانت و صلاحیت کا سکّہ منوایا ہے اور ان کا کردار مدتوں انمٹ رہا ہے۔

⬅️ محترمہ سیدہ غلام کبریٰ المعروف بی بی پڈھیار صاحبہ
بھی اس حوالے سے ایک دلیرانہ اور یادگار کردار کا نام ہے۔
محترمہ عوامی حلقوں میں ہمیشہ (احترام سے) ” بابا جی ” کے نام سے معروف رہیں۔ البتہ سیاسی حلقوں نے آپ کو
” بی بی پڈھیار” کے نام سے منفرد کیا۔

⬅️ ثقیل پنجابی میں “بھڈیار ” اور عرفِ عام میں “پڈھیار” ایک جٹ قبیلہ ہے۔ اسی قبیلے کے بزرگوں کے نام پر ایک گاؤں دو ناموں “میرو بھڈیار اور صابو بھڈیار” سے موسوم ہے۔ اسی نسبت سے آپ بھی “بی بی پڈھیار” کہلاتی ہیں۔ اگرچہ آپ کا تعلق ایک سیّد خاندان سے ہے۔

⬅️ “محترمہ بی بی پڈھیار” کا کردار اصل میں
” محسنِ پڈھیار Benificent of Bhadiar” کا ہے۔
آپ کی کاوشوں سے 1963ء میں گورنمنٹ بوائز پرائمری سکول بھڈیار کی بنیاد رکھی گئی۔
1976ء میں گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول بھڈیار اور 1984ء میں گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول صابو بھڈیار قائم ہوۓ۔
(گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول صابو بھڈیار 2017ء میں ایک بار پھر گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول میرو بھڈیار میں ضم کر دیا گیا ہے)۔

⬅️ آپ ہی کدوکاوش سے 1957ء میں پوسٹ برانچ (ڈاکخانہ) بھڈیار کا آغاز ہوا۔
آپ ہی کے سیاسی تعلقات سے 1984ء میں بھڈیار میں بائیو گیس پلانٹ اور (بجلی کا) سولر سسٹم نصب ہوا۔ (جس کا افتتاح 1985ء میں جناب راؤ فرمان علی صاحب، وفاقی وزیرِ پٹرولیم نے کیا)۔
👈 ازاں بعد 1989ء میں (واپڈا سے) عام بجلی بھی آپ کی کوششوں سے بھڈیار کا مقدر بنی۔
👈 1989ء میں ہی (نورپور) سائفن تا بھڈیار (براستہ چوہڑ منڈا) سڑک بھی آپ کے کارناموں میں سے ایک ہے۔

⬅️ محترمہ سیدہ غلام کبریٰ صاحبہ
بظاہر اَن پڑھ ہونے کے باوجود بے پناہ صلاحیتوں کی مالک اور ایک فطری راہنما (لیڈر) تھیں۔
1959ء کے بلدیاتی انتخابات میں پہلی بار کونسلر جبکہ 1962ء اور 1964ء کے انتخابات میں بی ڈی ممبر منتخب ہوئیں۔ 1979ء میں ایک بار پھر بی ڈی ممبر جبکہ 1983ء میں “ممبر ضلع کونسل” منتخب ہوئیں۔
👈 یہی دور محترمہ کے سیاسی عروج کا دور تھا۔ 1984ء میں جناب غلام جیلانی خان (گورنرِ پنجاب) کی زیرِ صدارت گورنر ہاؤس لاہور میں ” لیڈی کونسلرز کانفرنس ” میں آپ کو ڈویژن گوجرانوالہ سے خواتین کی منتخب نمائندہ کی حیثیت سے خطاب کا موقع ملا۔ اسی موقع پر آپ نے اپنے دلیرانہ خطاب سے گورنرِ پنجاب سمیت موجود تمام اعلیٰ سطحی شخصیات کو اپنا گرویدا بنا لیا۔ اسی کانفرنس کی وجہ سے آپ کو بائیو گیس پلانٹ اور سولر سسٹم سمیت یونین کونسل سوکن ونڈ کے لیے لاکھوں کے ترقیاتی منصوبہ جات کی تکمیل کے لیےفنڈز میسر آۓ۔

⬅️ محترمہ سیدہ غلام کبریٰ المعروف بی بی پڈھیار
وجودِ پاکستان (14 اگست 1947ء) سے قبل بھی مقامی سطح پر ایک متحرک اور ناموَر مسلم سیاسی راہنما تھیں۔
یہ دور چونکہ علاقائی سطح پر سکھوں کی (سیاسی و انتظامی) بالادستی کا تھا۔ اس دور میں بھی سوکن ونڈ ذیل کے 82 دیہات میں آپ سردار سوھن سنگھ، سردار چرن جیت سنگھ (ذیلدارانِ سوکن ونڈ) اور سردار بسنت سنگھ المعروف بسنتا (سرپنچ سوکن ونڈ) کے متوازی ایک مظبوط مسلم راہنما اور سیاسی مخالف تھیں۔
یاد رہے کہ 1947ء میں تقسیمِ ہند کے وقت علاقائی سطحوں پر لوگوں کو اپنے مال و دولت سے قطعی محروم ہو جانے، اپنے آبائی وطنوں سے بچھڑ جانے اور بہت بڑے پیمانے پر ہجرت کا بالکل یقین نہ تھا۔ لہزٰا سوکن ونڈ کے سکھوں نے بھی (عارضی مدت کے پیشِ نظر) اپنے مکانات اور مال مویشی مقامی مسلمانوں کے حوالے کیے اور علاقہ بھر کی طرح سردار اپار سنگھ (ذیلدار کلاسوالہ) کے ہاں، اس امید پر جا ڈیرہ لگایا کہ ہم چند روز بعد اپنے آبائی وطن سوکن ونڈ لَوٹ جائیں گے۔

⬅️ اسی دوران اہلیانِ بھڈیار کے کچھ جوشیلے مسلمان جوانوں نے بالخصوص سردار بسنت سنگھ سمیت سکھوں کے مکانات اور فصلیں جلا دیں۔ خبر کلاسوالہ میں مقیم سردار بسنت سنگھ کو پہنچی۔ آگ بگولہ ہوا۔ “بی بی جی” چونکہ لیڈر اور سیاسی مخالف تھیں، انہی پر الزام دھرا اور بدلہ لینے کا پیغام بھیجا۔
👈 29 اگست 1947ء کو سردار بسنت سنگھ سات سو (گھبرو) سکھوں کا جنگجو دستہ لے کر سوکن ونڈ اپنی حویلی (موجودہ جگہ مدنی مسجد، دیوبندی مسلک) پہنچا۔ اپنے جلے ہوۓ مکان، حویلی اور فصل کا جائزہ لیا۔ حکمت عملی بنائی۔ بعد از دوپہر بھڈیار پر حملہ آور ہوا۔

⬅️ “بی بی جی” نے جوش میں اٹھارہ فٹ بلند چھت سے چھلانگ لگا دی۔ کفن پوش ہو کر میدان میں نکلیں۔ اپنے پیچھے مسلمانوں کی صفیں بنائیں۔ سردار بسنت سنگھ کو نام لےکر للکارا۔ جو نہیں ہونی چاہیے تھی ۔۔۔۔۔ وہ علاقائی جنگ ہوئی۔ آغاز ہی میں سردار بسنت سنگھ، ڈاکٹر سلطان محمود چیمہ (چیمہ ہسپتال ڈسکہ) کی گولی کا نشان بنا۔ بسنت سنگھ گھوڑی پر لڑھکا۔ سکھوں میں بھگدڑ مچی۔ پانچ سو سکھ میدان میں کام آۓ۔ لاشوں کے پشتے لگے۔ دھرتی لہو لہو ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب “بی بی جی” نہیں ” باباجی ، باباجی ۔۔۔۔ شاہ جی، شاہ جی” ہو گیا۔

✍️ [محترم ڈاکٹر سلطان محمود چیمہ صاحب ان دنوں تلونڈی بھنڈراں (نارووال) ڈسپینسری میں سرکاری ملازم تھے۔ رائفل رکھنے کے شوقین تھے۔ مزکورہ لڑائی کے لیے اچانک مدعو تھے]۔

⬅️ محترمہ سیدہ غلام کبریٰ المعروف بی بی پڈھیار
کے جدِ امجد “حضرت سیّد شیر محمد شاہ المعروف بابا شیر شاہ” اٹھارویں صدی کے وسط (1749ء) میں (ایک کَشف پر حکم کے ذریعے) بھڈیال قاضیاں (تحصیل نواں شہر ضلع جمّوں) سے موجودہ جگہ (بھڈیار)، جو اس وقت ایک جنگل تھا، آ کر آباد ہوۓ۔
👈 جبکہ آپ کے دوسرے بھائی “حضرت سیّد خیر محمد شاہ المعروف بابا خیر شاہ” (موجودہ کوٹ گوندل) میں آباد ہوۓ۔
باباجی شیر شاہ صاحب کا بعد ازاں بھی مدتوں (بالخصوص محرم الحرام میں) بھڈیال قاضیاں منتقل ہو جانا زندگی بھر معمول رہا۔ کیونکہ آدھے سے زیادہ خاندان (آج بھی) بھڈیال قاضیاں ہی موجود تھا۔

⬅️ باباجی شیر شاہ صاحب کی آمد کے چند برسوں بعد بھڈیار/ پڈھیار خاندان بھی موجودہ بھڈیار سے دو فرلانگ دور جنوب مشرق کی طرف “سبلی المعروف چھینے کی” گاؤں آ بسا۔ یہ گاؤں (جو آجکل بے چراغ ہے) بعد میں شاہ پور بھڈیار کہلوایا۔ چھینوں کے نکل جانے کے اگلے پچیس تیس سال بعد پڈھیار موجودہ ” میرو اور صابو بھڈیار” کی جگہ منتقل ہو گۓ۔

⬅️ باباجی شیر شاہ کی آمد کے وقت محترم سیّد شاہ مدار شاہؒ اور شاہ مستان علی شاہؒ (المعروف بابامستانہ) کی قبور پہلے سے موجود تھیں۔
باباجی شیر شاہ نے مسلکی اختلاف کے باوجود ان بزرگوں کی قبروں کااحترام کیا۔ بلکہ دیکھ بھال کی۔ حتیٰ کہ وصیت کے نتیجہ میں ان کے پہلو میں دفن ہو کر آرام کرنا پسند فرمایا۔

⬅️ باباجی شیر شاہ کے والدِ محترم جناب قاضی سیّد ابراہیم شاہ لکھنؤ سے قاضی بن کر بھڈیال تشریف لاۓ تھے۔ آپ کی آمد سے بھڈیال، بھڈیال قاضیاں کہلوانے لگا۔ جبکہ آپ کے بڑے بھائی محترم سیّد خلیل شاہ (باباجی شیر شاہ کے تایاجی) لکھنؤ میں ہی مقیم رہے۔
👈 جناب سیّد ابراہیم شاہ صاحب سے گیارہویں پشت پر آپ کا شجرۂ نسب حضرت سیّد امام موسیٰ کاظمؒ سے جا ملتا ہے۔ اسی نسبت سے یہ خاندان کاظمی کہلواتا ہے۔

⬅️ محترمہ سیدہ غلام کبریٰ صاحبہ
کے خاندان اور بزرگوں کا تعلق اہلِ تشیع مسلک سے ہے۔ لیکن یہ خاندان انتہائی معتدل مزاج ہے۔ اپنی پوری معلوم تاریخ میں اس خاندان نے کبھی دوسروں کے ساتھ تلخی اور شدّت کا ماحول پیدا نہیں ہونے دیا۔ یہی وجہ ہےکہ مقامی سطح پر تمام لوگ اس خاندان کے بزرگوں بالخصوص باباجی شیرشاہ صاحب کا احترام کرتے آۓ ہیں۔ عقیدتیں پیش کرتے آۓ ہیں۔ بلکہ سیاسی امام تک مانتے آۓ ہیں۔

⬅️ میری ممدوحہ “محترمہ سیدہ غلام کبریٰ صاحبہ”
1901ء میں محترم سید غلام غوث شاہ کے ہاں پیدا ہوئیں۔ آپ اپنے والد کی اکلوتی اولاد تھیں۔
آپ کے دادا کا نام سید راجن شاہ تھا۔ آپ کے پردادا سید نَورَنگ شاہ اور لکڑ دادا حضرت سید شیر محمد شاہ المعروف بابا جی شیر شاہ صاحب تھے۔ آپ 107 سال کی عمر میں نومبر 2007ء میں اس جہانِ فانی سے کوچ فرما گئیں۔

راقم الحروف کو نومبر 2001ء میں “محترمہ باباجی” سے پہلی اور آخری ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اسی نشست کا خلاصہ آج آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے۔

وقت نے موقع دیا تو بہت جلد ” تاریخ ِ پڈھیار” پر بھی قلم اٹھاؤں گا۔ (انشاءاللہ)