Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

قسط نمبر: 2 کلاسوالہ کے ماضی ، حال اور مستقبل پر سلسلہ وار دلچسپ تحریر

قسط نمبر: 2 کلاسوالہ کے ماضی ، حال اور مستقبل پر سلسلہ وار دلچسپ تحریر ہم نے دیکھا کہ دھرتی کلاسوالہ نے زوال کی انتہاؤں سے لے کر...

قسط نمبر: 2
کلاسوالہ کے ماضی ، حال اور مستقبل پر سلسلہ وار دلچسپ تحریر
ہم نے دیکھا کہ دھرتی کلاسوالہ نے زوال کی انتہاؤں سے لے کر عروج کی بلندیوں تک کے منظر دیکھے اور آج یہ اپنے بے ہنگم حال کے ساتھ پریشان مستقبل کی طرف رواں دواں ہے جو دھرتی کلاسوالہ کے باسیوں کے لیے ایک فکر آموز اور دکھ بھری بات ہے۔
آئیے اب کلاسوالہ کی سیاست کے ماضی ، حال اور مستقبل پر ایک عمیق اور طائرانہ نظر ڈالتے ہیں ، ہم دیکھتے ہیں کہ کلاسوالہ کی سیاست کا آغاز رنجیت سنگھ کی بہو مائی جنداں کے آباو اجداد کی ڈیرا داری اور پنچائیت سے ہوا جو کلاسوالہ کی آباد کاری کے بعد کلاسوالہ اور اس کے گردونواح میں اپنا ذاتی رسوخ رکھتے تھے اور اس سے اگلے وقتوں میں جب انگریز نے کلاسوالہ کو کئی دہائی دیہات کا معاشی مرکز ہونے اور پنجاب بھر سےانگریز کے رسوخ کے حامل ہندو اور سکھ رئیسوں میں کلاسوالہ کے رئیسوں کے نمایاں ہونے کی وجہ سے کلاسوالہ کو باقاعدہ سمال ٹاؤن کا درجہ دے دیا تھا (جس کا مفصلا ذکر “روسا پنجاب” جلد دوم میں ملتا ہے) اور اس وقت کلاسوالہ کی مقامی سیاست میں ایک مضبوط سیاسی جمہوری معاشرہ وجود میں آ چکا تھا اور کلاسوالہ میں موجود ہندو ، سکھ اور مقامی مسلمان اس جمہوری عمل کا باقاعدہ حصہ تھے۔
لہذا اس جمہوری سیاسی عمل کا باقاعدہ آغاز سردار دہا سنگھ کی سرداری ہے جو ہندو ، سکھ اور مسلمانوں میں متفقہ رسوخ رکھتا تھا لیکن آخر کار اس کے متعصب فیصلوں کی وجہ سے مقامی مسمانوں میں بیداری شعور کا عمل وقوع پذیر ہوا اور مستری محمد شاہ مسمانوں اور سکھوں کی نمائندہ شخصیت بن کر ابھرے اور سردار دہا سنگھ عبرت ناک شکست سے دوچار ہوا اور مستری محمد شاہ 1939 سے 1944 تک (دوسری جنگ عظیم کے دوران) سمال ٹاؤن کلاسوالہ کے صدر رہے اور پھر ان کی سرداری یعنی صدارت کو تب شکست ہوئی جب متعصب ہندو کی شاطرانہ عقل نے سادہ لوح سکھ عوام اور سرداروں کی سوچ میں رخنہ اندازی کی کہ تم پر ایک مسلہ حکومت کر رہا ہے اور بالآخر ہرچرن سنگھ باجوہ اس گروہ کا نمائندہ بنا اور ترقی کرتا کلاسوالہ ایک سیاسی و انتظامی دھچکے سے دوچار ہوا اور ہندو سکھ اتحاد نے مستری محمد شاہ کی حکومت کا خاتمہ کر دیا اور 13 اگست 1947 تک ہرچرن سنگھ باجوہ سمال ٹاؤن کلاسوالہ کا صدر رہا اور پھر پاکستان بن جانے کی وجہ سے اپنے قبیلے کے سردار اوپار سنگھ کے ساتھ ہندوستان کوچ کر گیا۔
یہاں تک پہنچتے ہوئے مستری محمد شاہ کے دور میں کلاسوالہ نے بہت ترقی اور کلاسوالہ سمال ٹاؤن سے میونسپل کمیٹی کا درجہ حاصل کر گیا اور اس کلاسوالہ کی ترقی کا یہ عالم تھا کلاسوالہ پسرور سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا اور کئی سو دیہات کے تجارتی مرکز اور پنجاب لیول کے حکومتی رئیسوں کی رہائش گاہیں کلاسوالہ میں ہونے کی وجہ سے ضلع بھر میں واحد سڑک تھی جو کلاسوالہ کو سیالکوٹ شہر سے ملاتی تھی اور کلاسوالہ پنجاب بھر میں اپنی منفرد شناخت رکھتا تھا۔