Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

کلاسوالہ کے ماضی ، حال اور مستقبل پر سلسلہ وار دلچسپ تحریر

اگر ہم قصبات کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ قصبات (سمال ٹاؤن) ہمیشہ ریاست کا بنیادی کردار رہے ہیں اور خاص طور پر جب ہم جمہوریت ...

اگر ہم قصبات کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ قصبات (سمال ٹاؤن) ہمیشہ ریاست کا بنیادی کردار رہے ہیں اور خاص طور پر جب ہم جمہوریت اور اقتدار کی نچلے درجے پر منتقلی کی بات کرتے ہیں تو یہ بات اور واضح ہو جاتی ہے کہ چھوٹے چھوٹے قصبات نظام جمہوریت کا بنیادی حصہ ہیں لہذا ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سمال ٹاؤن (چھوٹے قصبات) شہری ریاستوں سے لے کر عظیم وفاق تک بنیادی اہمیت کے حامل ہیں انہی امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم کلاسوالہ کا تاریخی جائزہ لیتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کے اکبر کے زمانے سے بہت پہلے ڈوگروں کے ویران ملبے پر بسنے والی بستی کلاسوالہ ، جس کو رنجیت سنگھ کی بہو رانی مائی جنداں کے رشتہ داروں نے اپنے خاندانی بڑے کلاس نامی شخص کے نام پر آباد کیا جو بعد میں کلاسوالہ بن گیا۔
کلاسوالہ عہد در عہد نت نئے حالات سے گزرا کبھی اس نے رنجیت دیو کی ظلمتوں کے زخم سہے اور کبھی مائی جنداں کی وجہ سے رنجیت سنگھ کا مطمئع نظر ٹھہرا ،کبھی چاروں طرف دور دور تک باغات ہونے کی وجہ سے باغات نگر کہلایا تو کبھی پنجاب بھر میں اپنی اہمیت کی وجہ سے انگریزوں کے قبضے کے وقت توپوں کی بھمنبھارمنٹ اس کے مقدر کا حصہ بنی ، مائی جنداں کے خاندان کی چوہدراہٹوں سے اس کے پنچائیتی معاشرے کا آغاز ہوا اور انگریز کی آنریری عدالت کی تاریخ اس کا حصہ بنی اور اگلے وقتوں میں انگریز نے اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کو سمال ٹاؤن کا درجہ دے دیا ، پنجاب کی آزادی کی جنگ میں ایک بڑا نام “جھنڈا سنگھ” کا تعلق بھی اسی دھرتی سے تھا۔
اسی طرح انگریز کی غلامی کے زخم چاٹنے کے بعد 1857 کی جنگ آزادی کے 90 سالہ دور کے بعد جب اس دھرتی پر ایک بار پھر آزادی کا ذوق پیدا ہو رہا تھا دھرتی کلاسوالہ نے قائد اعظم کو پاکستان کا جھنڈا دینے والے محدث علی پوری اور کی قربت کا موسم دیکھا اور کلاسوالہ محدث علی پوری کے جلسوں کا مرکز بنا۔
اس دھرتی نے عروج و زوال اور مکافات کے عمل کی چکی چلتی دیکھی اور اور بہت سی وبائیں اور قحط اس کے مختلف ادوار نے دیکھے ، دنیاوی عروج و زوال کے علاوہ الوہی اور حقیقی محبتیں بھی اس کے حصے میں آئی ، اس دھرتی پر کہیں جانے شاہ کا مجذوبانہ رقص تھا تو کہیں شاہ گہنہ کے تصوف کے راج کو اس دھرتی کے بام و در بیان کر رہے تھے ، اسی دھرتی پر امن و محبت کا گیت گانے والے مولانا عبدالحئی کی کہانی لوک ادب کا حصہ بنی ، اسی دھرتی پر بابا عطر سنگھ نے حلقہ بگوش اسلام کا عظیم نمونہ پیش کیا اور اسی دھرتی پر سردار بوٹا سنگھ نے اسلام سے اپنی گہری محبت عملی نمونہ پیش کیا۔
(جاری ہے)