Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

سپریم کورٹ کے دو سینیئر ججز نے چیف جسٹس کی تقریر پر کیا اعتراض کیے؟

سپریم کورٹ کے دو سینیئر ترین ججز اورجوڈیشل کمیشن کے ارکان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی 12 ستمبر کو...

سپریم کورٹ کے دو سینیئر ترین ججز اورجوڈیشل کمیشن کے ارکان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی 12 ستمبر کو نئے عدالتی سال کے آغاز پر کی گئی تقریر پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس سردار طارق مسعود نے جوڈیشل کمیشن کے ارکان کو اس حوالے سے مشترکہ خط لکھا ہے۔

دونوں ججز نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ چیف جسٹس کے خطاب سے وہ حیران اور مایوس ہوئے ہیں، چیف جسٹس کی جانب سے عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کا دفاع اور تنقید کا جواب دیا گیا ہے۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ چیف جسٹس کی جانب سے یکطرفہ بات کی گئی، سپریم کورٹ تنہا چیف جسٹس کا نام نہیں۔‘

عدالت عظمیٰ کے ججز کی جانب سے خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ’چیف جسٹس نے زیر سماعت مقدمات پر تبصرہ بھی کیا جو ہمارے لیے پریشانی کا باعث بنا۔

’چیف جسٹس نے سپریم کورٹ بار کے کئی موجودہ اور سابق عہدیداران کے حوالے سے نامناسب باتیں بھی کیں۔‘

خط میں یہ بھی کہا گیا کہ ’چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں سیاسی پارٹی بازی کا الزام لگایا۔‘

خط میں ججز کا کہنا تھا کہ ’سب سے زیادہ نامناسب جوڈیشل کمیشن کے فیصلوں کا تذکرہ تھا، جوڈیشل کمیشن کے چیئرمین کو وہ کچھ نہیں کہنا چاہیے تھا جو کہا گیا۔‘

’چیف جسٹس کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کمیشن کے ارکان پر حملہ کریں۔ چیف جسٹس نے جو کہا وہ ریکارڈ سے ثابت نہیں ہوتا، یہ درست نہیں کہ ان کے امیدواروں کی تائید جوڈیشل کمیشن کے 4 ارکان نے کی، چیئرمین نے اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہونے پر اکثریت کے فیصلے کو خود پر حملہ سمجھا۔‘

خط میں کہا گیا ہے کہ ’آئین کے مطابق ضروری ہے کہ جوڈیشل کمیشن اپنے کل ارکان کی اکثریت سے ججز نامزد کرے گا، چیف جسٹس جب تقریر پڑھ رہے تھے تو ہم ان کے دائیں بائیں بیٹھے تھے۔‘

ججز کے مطابق ’تقریب کے وقار کے تحفظ کی خاطر ہم چیف جسٹس کی تقریر کے دوران خاموش رہے۔ چیف جسٹس کی تقریر کی اشاعت پر ہم وضاحت دینے پر مجبور ہوگئے ہیں تاکہ ہماری خاموشی کو غلط مفہوم پہناتے ہوئے رضامندی سے تعبیر نہ کیا جائے۔‘