پنجاب میں دہشت گردی کی ایف آئی آر کے اندراج کے خلاف وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ نے خارج کر دی. منگل کو اسلام ...
پنجاب میں دہشت گردی کی ایف آئی آر کے اندراج کے خلاف وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ نے خارج کر دی.
منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے پنجاب میں درج دہشت گردی کے مقدمے میں ایک قانونی نقطے سے متعلق میاں جاوید لطیف کی درخواست خارج کر دی۔
پنجاب میں دہشت گردی کی ایف آئی آر کے خلاف رکن اسمبلی جاوید لطیف کی رٹ درخواست میں اسلام آباد میں ہونے والی پریس کانفرنس پر لاہور میں مقدمہ درج ہونے کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں درخواست گذار کے وکیل ایڈوکیٹ قیصر امام نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کی درخواست لاہور میں کاٹی گئی دہشت گردی کی ایف آئی آر کے خلاف نہیں بلکہ اس قانون نقطے پر ہے کہ اگر جرم ایک شہر میں درج ہوا ہے تو ایف آئی آر دوسرے شہر میں کیسے کاٹی جا سکتی ہے.
وکیل کا کہنا تھا کہ میاں جاوید لطیف کے خلاف لاہور میں کاٹی ایف آئی آر ان کی اسلام آباد میں کی گئی ایک پریس کانفرنس سے متعلق ہے اور دہشت گردی کا الزام الفاظ کی ادائیگی کی وجہ سے ہے تو الفاظ اسلام آباد میں ادا کیے گئے، جہاں تک وہ الفاظ لاہور میں میڈیا کے ذریعے نشر ہونے کا تعلق ہے تو وہ ایک الگ جرم ہے۔
بیرسٹر قیصر امام رضوی نے دلائل دیے کہ میاں جاوید لطیف کے خلاف جس بیان پر دھشت گردی کی ایف آئی آر کاٹی گئی وہ بیان اسلام آباد ہائی کورٹ کی حدود میں دیا گیا.
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایف آئی آر لاہور میں کٹی ہے اور آپ لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کریں۔
عدالت نے میاں جاوید لطیف کی درخواست خارج کر دی۔
میاں جاوید لطیف کے وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی وزیر اور پی ٹی وی افسران سے متعلق ایسے ہی دھشت گردی کے مقدمات میں احکامات جاری کیے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ وفاقی حکومت کے سرکاری افسران تھے اس لیے وزارت داخلہ کو ان کے تحفظ کے لیے احکامات جاری کیے گئے، یہ عدالت لاہور میں کٹی ایف آئی آر پر کوئی حکم جاری نہیں کرے گی.
ایڈوکیٹ قیصر امام کا کہنا تھا کہ وہ ایف آئی آر کی منسوخی کے لئیے نہیں آئے بلکہ اس قانونی نقطے پر آئے ہیں کہ اگر پریس کانفرنس اسلام آباد میں کی گئی ہے تو کیا پرچہ لاہور میں کاٹا جا سکتا ہے، اور یہ کہ الفاظ کی ادائیگی اور ان کا پورے ملک میں نشر ہونا دو الگ الگ جرائم ہیں اور عدالت اپنے فیصلے سے یہ قرار دے کہ ایف آئی آر اس جگہ کاٹی جائے گی جہاں پر ایسے الفاظ ادا کیے جائیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایسا فیصلہ دے بھی دیا جائے تو پھر اس پر عمل کیسے ہو گا اور کیا جو کام بلاواسطہ نہیں کیا جا سکتا وہ بلواسطہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟
ایڈوکیٹ قیصر امام نے کہا کہ وہ ایف آئی آر کے خلاف نہیں ایک قانونی نقطے پر عدالت آئے ہیں.
عدالت نے درخواست متعلقہ فورم پر دائر کرنے کے مشورے کے ساتھ خارج کردی۔