Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

پی ٹی آئی پارلیمنٹ نہیں جاتی تو استعفوں کے خلاف عدالت کیوں آئی؟ ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اپنے استعفوں کی منظوری بھی نہیں مانتی اور پارلیمن...

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اپنے استعفوں کی منظوری بھی نہیں مانتی اور پارلیمنٹ میں بھی نہیں جاتی، انہوں نے وکیل سے کہا کہ درخواست گزار پہلے پارلیمنٹ جائیں پھر عدالت میں آئیں۔

اسلام آباد (۵ ستمبر ۲۰۲۲) مطیع اللہ جان

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر سے کہا ہے کہ پی ٹی آئی ایک طرف اپنے استعفوں کی منظوری بھی نہیں مانتی اور دوسری طرف پارلیمنٹ میں بھی نہیں جاتی، آپ پہلے پارلیمنٹ جائیں پھر عدالت میں آئیں۔

پی ٹی آئی کے دس اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے خلاف رٹ درخواست کی سماعت اسلام آباد ہائی کو رٹ میں سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے، کیا پی ٹی آئی کا استعفوں کی منظوری کے خلاف عدالت میں موقف پارٹی پالیسی کے برخلاف نہیں ہے؟ کیا جس طرح ایک رکن شکور شاد کے استعفے کی منظوری کے خلاف ان کی درخواست کی منظوری پر پارٹی نے کاروائی کی اسی طرح کیا ان دس اراکین کے خلاف بھی پارٹی ایکشن لی گی، اگر یہ استعفے واپس لیتے ہیں تو پھر ان سب کو پارلیمنٹ میں جاُکر بیٹھنا چاہئیے، اس جماعت کو پارلیمنٹ میں بیٹھ کر دوسری جماعتوں کے ساتھ ڈائیلاگ کرنا چاہئیے، پہلے یہ ثابت کریں کہ یہ اراکین واقعی پارلیمنٹ میں جا کر بیٹھنا چاہتے ہیں اگر نہیں تو یہ پارٹی پالیسی کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو گی، پہلے یہ بتائیں کے یہ اراکین عدالت میں صاف نیت کے ساتھ آئے ہیں اور یہ واپس پارلیمنٹ میں جا کر بیٹھنا چاہتے ہیں۔

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ دس اراکین اپنے استعفوں کی منظوری کے خلاف رٹ درخواست دائر کر کے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہوئے، عدالتی فیصلوں سے واضح ہے کہ استعفوں کی منظوری کے لیے خاص طریقہ کار ہے جس کی پابندی لازمی ہے جیسا کہ سپیکر کا انفرادی استعفوں پر ذاتی طور پر تسلی کر لینا کہ استعفی بغیر کسی دباؤ کے دیا گیا ہے، اور اگر سپیکر ایسی انکوائری نہیں کرتا تو استعفے منظور نہیں کیے جا سکتے، پی ٹی آئی نے ۱۲۳ استعفے دئیے تھے مگر جان بوجھ کر سپیکر نے حکمران جماعت سے ملی بھگت کر کے صرف گیارہ استعفے منظور کیے جس کی آڈیو بھی منظرِ عام پر آ چکی ہے، اگر تمام ۱۲۳ استعفوں کو اجتماعی طور پر منظور نہیں کیا جاتا تو پھر ہم استعفے نہیں دے رہے، یہی پارٹی کی پالیسی ہے، سپیکر نے اپنے سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی طرف سے تمام استعفوں کو منظور کرنے کے فیصلے کو بھی اسی بنیاد پر ختم کیا تھا کہ استعفی دینے والوں کو بلا کر پوچھا کہیں کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ صرف اراکین کے استعفوں کا معاملہ نہیں بلکہ ان کے انتخابی حلقوں کے لاکھوں ووٹروں کی نمائندگی کا معاملہ ہے، اس لیے جن کے استعفے منظور نہیں ہوتے ان کو تو پارلیمنٹ میں اپنے لاکھوں ووٹروں کی نمائندگی جاری رکھنی چاہئیے تھی اور ایسی صورت میں ہی یہ عدالت ایسی درخواست پر غور کر سکتی، یہ کوئی ثانوی اہمیت کی بات نہیں بلکہ بہت اہم ہے، عدالت یہ کیسے قبول کرے کہ یہ اراکین استعفوں کی منظوری کو بھی نہ مانیں اور پھر واپس پارلیمنٹ میں بھی نہ جائیں اور پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کریں۔ عدالت پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال نہیں ہونے دے گی، یہ لاکھوں ووٹروں کی نمائندگی کا معاملہ ہے جن کی نمائندگی نہیں ہو پا رہی۔ آپ اس بارے میں واضح موقف اپنائیں اور پھر عدالت میں آ جائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے پہلے بھی اور اب بھی پارلیمنٹ یا سپیکر کو ہدایات نہیں دیں اور نہ ہی دینی چاہئیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اگر استعفوں کی منظوری واپس لی جاتی ہے تو پھر پی ٹی آئی فیصلہ کرے گی کہ واپس پارلیمنٹ میں جا کر بیٹھنا ہے یا نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پارلیمنٹ جائیں اور عدالت اگلے ہی روز آپ کی درخواست سنے گی، عدالت خود کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گی.

چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گذار کے موقف سے لگتا ہے کہ یہ پارلیمنٹ کو تسلیم نہیں کرتے، یہ کھلا تضاد ہے، ایک طرف وہ استعفے منظور نہ ہونے کے باوجود بھی پارلیمنٹ میں نہیں جاُرہے اور دوسری طرف استعفوں کی منظوری کو بھی نہیں مانتے۔ اگر ایک منتخب نمائندہ اپنے حلقے کے لوگوں کی نمائندگی نہیں کرنا چاہتا تو یہ عدالت اس کو کیوں سنے۔

بیرسٹر علی ظفر نہے کہا کہ چند دنوں میں ضمنی انتخابات بھی ہونے جا رہے ہیں.

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت مداخلت نہیں کرے گے، ماضی میں بھی اس عدالت نے کسی سپیکر کو کوئی احکامات جاری نہیں کیے۔ سیاسی معاملات پارلیمنٹ کے اعلی ترین ادارے میں حل کیے جائیں، آخر لوگوں کی جیبوں سے ضمنی انتخابات کے اخراجات کیوں لیے جائیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا دس اراکین اسمبلی سپیکر قومی اسمبلی سے مل کو اپنا موقف دے سکتے ہیں؟

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ایسا ہو سکتا ہے مگر پہلے ان کےاستعفوں کی منظوری کو معطل کیا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ آئین کے تحت وجود میں آئی ہے اور اگر معاملات گلیوں اور سڑکوں پر طے ہونے ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔ اگر ایک منتخب نمائندہ اپنے حلقے کے لوگوں کی نمائندگی نہیں کرنا چاہتا تو یہ عدالت اس کو کیوں سنے۔ بیرسٹر علی ظفر نے مشاورت کےلیے مہلت مانگی.

عدالت نے پارٹی سے مشاورت کے لیے بیرسٹر علی ظفر کو ایک گھنٹے کا وقت دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی بتائے کہ پارلیمنٹ میں جانا ہے یا نہیں.