Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

تفصیلی فیصلہ: ’اگلے وزیراعظم کے انتخاب تک اجلاس ملتوی نہیں ہوسکتا‘

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لاجر بینچ نے سپیکر کی رولنگ پر ازخودنوٹس کیس میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو خلافِ آئین قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی بحال ک...

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لاجر بینچ نے سپیکر کی رولنگ پر ازخودنوٹس کیس میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو خلافِ آئین قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی بحال کرنے اور وزیرِاعظم کے خلاف عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا حکم دیا ہے۔

سپریم کورٹ کا آٹھ صفحات پر مشتمل فیصلہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دینے سے شروع ہوتا ہے۔
عدالت نے فیصلے کے پہلے پیرا گراف میں لکھا ہے کہ ’عدم اعتماد کی تحریک پر سپیکر کی رولنگ میں بتائی گئی وجوہات آئین اور قانون سے متضاد ہیں جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، اور اس لیے ان کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔‘
فیصلے کے دوسرے پیراگراف میں عدالت نے لکھا کہ ’اس عمل کے تسلسل میں یہ قرار دیا جاتا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک تاحال موجود ہے اور اس پر کارروائی ہونا ہے۔‘
عدالت نے فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 58 کی پہلی شق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سارے عمل کے دوران وزیراعظم پر پابندی عائد تھی اور وہ اس دوران صدر کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دینے کے مجاز نہ تھے۔

چوتھے پیراگراف میں عدالت نے لکھا کہ ’واقعات کے اسی تسلسل میں وزیراعظم کی جانب سے تین اپریل کو قومی اسمبلی توڑنے کے لیے صدر کو بھیجی گئی ایڈوائس کی کوئی آئینی و قانونی حیثیت نہیں۔‘
عدالت کے مطابق ’صدر کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم نامہ آئین سے متضاد اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، اور اس کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ یہ قرار دیا جاتا ہے کہ اس تمام عرصے میں قومی اسمبلی موجود تھی اور موجود رہے گی۔‘
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’اس عرصے کے دوران ایسے تمام اقدامات یا کارروائی جو بھی ہوا، خواہ کسی بھی وجہ سے، صدر کے احکامات کے بعد جن کے تحت الیکشن کرانے اور نئی اسمبلی منتخب کرنے کے لیے، بشمول نگران وزیراعظم کے تقرر کے، ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور ان کو ختم کیا جاتا ہے۔‘
عدالتی فیصلے کے مطابق ’اسی کے نتیجے میں وزیراعظم، وفاقی وزرا، وزرائے مملکت، مشیروں کو بحال کیا جاتا ہے۔ اس دوران قومی اسمبلی موجود رہی اور سپیکر آئین کے مطابق اس کو چلانے کے پابند ہیں۔ سپیکر کی جانب سے اسمبلی کی تحلیل سے قبل اس کے اجلاس کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنے کی قانونی حیثیت نہیں۔‘
فیصلے کے نویں پیراگراف میں کہا گیا ہے کہ ’سپیکر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قومی اسمبلی کا جاری اجلاس طلب کریں، اور ایسا فوری طور پر کریں جس میں سنیچر کے صبح ساڑھے دس بجے سے زیادہ تاخیر نہ کی جائے جو 9 اپریل کی تاریخ ہے۔ اور اس دن اسی ایجنڈے پر کارروائی کرے جو تین اپریل کو جاری کیا گیا تھا۔

فیصلے کے مطابق سپیکر آئین کے آرٹیکل 54 کی شق تین کے تحت اسمبلی کے اجلاس کو اس وقت تک ملتوی نہیں کر سکتے جب تک عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ نہیں ہو جاتی۔ اجلاس اسی وقت ملتوی کیا جا سکتا ہے کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو جائے، یا عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جائے اور آئین کے آرٹیکل 91 کے تحت نئے وزیراعظم کا انتخاب ہو جائے اور وہ رولز 32 کے تحت اپنا عہدہ سنبھال لیں۔
پیرا گراف 11 میں لکھا ہے کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتی ہے تو قومی اسمبلی کے اسی جاری اجلاس میں نئے وزیراعظم کے انتخاب کے بعد سپیکر اور وفاقی حکومت سمیت تمام متعلقہ حکام اس عدالت کے احکامات اور ہدایات پر فوری عمل کرائیں۔
عدالت نے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی جانب سے جو یقین دہائی کرائی گئی تھی وہ اب عدالتی حکم ہے جس کے تحت حکومت کسی بھی انداز میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں کسی بھی طور روڑے نہیں اٹکا سکتی۔ اجلاس میں کسی بھی رکن کو شرکت سے روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی رکن کو عدم اعتماد کی تحریک اور نئے وزیراعظم کے انتخاب کے وقت ووٹ ڈالنے سے روک سکتی ہے۔
تاہم عدالت نے قرار دیا کہ یہ مختصر حکم نامہ کسی بھی طور آئین کے آرٹیکل 63 اے پر اثرانداز نہیں ہوگا جس کے تحت اگر کوئی رکن پارٹی سے منحرف ہوتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔
آخری پیراگراف میں عدالت نے کہا ہے کہ تین اپریل کو جو حکم جاری کیا گیا تھا کہ ’وزیراعظم اور صدر کی جانب سے کیا گیا کوئی بھی فیصلہ اس کیس میں عدالتی حکم کے تابع ہوگا‘، یہ اس وقت تک نافذ العمل ہوگا جب تک عدالت کے اس مختصر فیصلے پر مکمل عمل نہیں ہو جاتا۔