Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

پولیس کی پستی

پولیس کی پستی میں پنجاب پولیس کے کچھ اعلیٰ افسران کی فنکاریوں کا دل سے قدردان ہوں، یہاں فنکاری بھی کسی کسی کو آتی ہے، اپنی ”فنکاری“ کو اپنے...

پولیس کی پستی

میں پنجاب پولیس کے کچھ اعلیٰ افسران کی فنکاریوں کا دل سے قدردان ہوں، یہاں فنکاری بھی کسی کسی کو آتی ہے، اپنی ”فنکاری“ کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا گر کوئی کوئی جانتا ہے، پنجاب پولیس کے کچھ”کاریگر افسران“ نے اس گر کو استعمال کر کے ڈیڑھ سال بڑے آرام سے گزار لیا، اس دوران انہوں نے صرف اپنے لئے نہیں ظالم سرکار کے لئے بھی بہت سی آسانیاں پیدا کئے رکھیں، جس کے نتیجے میں سوا سال میں ان کے راستے میں کوئی دیوار کھڑی نہیں کی گئی، سی ایم کی طرف سے انہیں کوئی لیٹر جاری نہیں کیا گیا کہ ”حضور ہمیں جہاں آپ کی ضرورت ہوگی ہم خود آپ کو بلا لیں گے، آپ ایسے ہی منہ و دیگر اعضاء وغیرہ چک چکا کے ہر جگہ نہ پہنچ جایا کریں“، ہماری پنجاب پولیس میں نچلی سطع پر اتنی کرپشن اور منافقت نہیں جتنی اوپر کی سطع پر ہے، بے چارے ماتحت ملازمین کرپشن کی بہتی گنگا سے صرف ہاتھ وغیرہ ہی دھوتے ہیں، یا زیادہ سے زیادہ منہ پر دو چار چھٹے مار کر منہ مزید کالا کر کے بدنام ہو جاتے ہیں، دوسری طرف اْن کے اعلیٰ افسران کرپشن کی بہتی گنگا سے پورے پورے غسل فرما کر بھی خود کو دیانتدار مشہور کرنے اور کروانے میں کامیاب رہتے ہیں، ایک”کرپشن“ تکبر کی بھی ہوتی ہے، کچھ پولیس افسران تکبر کے کرپٹ ہیں، پچھلے سوا ڈیڑھ سال میں وہ اپنے عہدوں سے نہیں ہٹے تو اس بنیاد پر وہ ایمان کی حد تک اس یقین میں مبتلا ہیں سدا ”بادشاہی“ ان کی ہے، وہ اس حقیقت کو بْھلا بیٹھے ہیں بڑے بڑے بادشاہ نہیں رہے ان کے ”کتورے“ کیسے رہیں گے؟، آج میری یہ بات وہ لکھ کے رکھ لیں، ایک سال کے اندر حالات بالکل مختلف ہوں گے، یہ سب اپنے اپنے عہدوں سے فارغ ہو کر جیلوں میں ہوں گے، ان سے اْن تمام مظالم کا حساب لیا جائے گا، جو بے گناہ لوگوں پر انہوں نے ڈھائے اور مال بنائے، پھر ظل شاہ کا لہو بھی بولے گا اور رازکھولے گا، میں چونکہ بیرون مْلک مقیم دوستوں اور پاکستانیوں کی دعوت پر بہت سفر کرتا ہوں، میرے پاس بہت معلومات ہیں کس کس سول افسر، پولیس افسر اور کسٹمز و دیگر محکموں کے افسران نے کس کس ملک میں کتنی جائیدادیں اپنے یا اپنے کس کس عزیز کے نام پر بنائی ہیں؟ اور کون کون سا افسر اپنے عہدے یا اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے غیر ملکی شہریت حاصل کر چکا ہے یا اس کا کیس انڈر پروسس ہے؟، یہ تو ہوگئیں ان کی کرپشن اور ظلم کی کہانیاں، منافق بھی یہ پرلے درجے کے ہیں، آپ کے منہ پر آپ کو”لیجنڈ“ قرار دیں گے، ایسے ایسے اعلیٰ خطابات سے آپ کو نوازیں گے کم از کم میرے جیسے نااہل اور گناہ گار انسان کو سن کر شرم آتی ہے، اور آپ کی غیر موجودگی میں وہ آپ کی ایسی ایسی برائی کریں گے جو آپ کی موجودگی میں کرنے کی وہ جرأت ہی نہیں کر سکتے، میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں، ایک بار میں نے ایک آئی جی کی ناقص پالیسیوں کے خلاف بہت سخت کالم لکھا، جس روز یہ کالم شائع ہوا صبح صبح مجھے ایک ڈی آئی جی کا فون آگیا، اس نے اس کالم پر میری جرأت کو پہلے تو سلام کیا بعد میں مزید خوشامد کی انتہا کر دی، کچھ دیر بعد مجھے کسی اور پولیس افسر نے ایک سکرین شاٹ بھیجا، بیرون ملک کسی کورس پر گئے ہوئے ایک پولیس افسر نے اپنے بیج میٹس و دیگر پولیس افسران کا ایک واٹس ایپ گروپ بنایا ہوا تھا، اس واٹس ایپ گروپ میں میرے اسی کالم پر اسی ڈی آئی جی نے میرے خلاف انتہائی پرلے درجے کے کمنٹس کئے جو کچھ دیر پہلے مجھے فون پر یہ کالم لکھنے پر سلام پیش کر رہا تھا، میں نے اسے وہ ”سکرین شاٹ“ بھیجا، وہ فوراً جھوٹی سچی وضاحتیں دینے لگا اور بعد میں میرے گھر آکر مجھ سے معذرت کر گیا، اسی طرح میں نے پنجاب کے ایک اعلیٰ پولیس افسر سے کسی مظلوم کا کوئی انتہائی جائز کام کہا، اس نے مجھے وائس میسج کیا کہ اس نے متعلقہ افسر کو ہدایت جاری کر دی ہے یہ کام فوراً کر دیا جائے، وہ متعلقہ افسر میرا بہت اچھا دوست ہے، میں نے اس سے اس بات کی تصدیق کی، وہ کہنے لگا ”صاحب نے کہا ہے اس کام کے لئے تمہیں کسی کی بھی سفارش آئے تم نے نہیں کرنا“، اس نے مجھ سے کہا ”یہ بہت جائز کام ہے کچھ دن رک جاؤ صاحب ذرا بھول جائیں میں یہ کام کر دوں گا“، جو بعد میں اس نے کر بھی دیا تھا، یہاں کسی کی کوئی بات چھپی نہیں رہتی، منافقت تو بالکل ہی چھپی نہیں رہتی، بس یہ ہے کوئی منافق اپنی فنکاریوں کے بل بوتے پر ایکسپوز ہونے میں کچھ وقت لے لیتا ہے اور کوئی فوراً ہو جاتا ہے، اس ملک کا انتظامی ڈھانچہ آج قبر میں اترنے کے قریب ہے تو اس کے ذمہ داران وہ منافق سرکاری بابو ہیں جنہوں نے اپنے اپنے مالی و ذاتی مفادات کے لئے مْلکی مفادات کا کچومر نکال کے رکھ دیا، بالاآخر یہ سب ذلیل و رسوا ہوں گے جیسے اس ملک کو دنیا بھر میں ذلیل و رسوا انہوں نے کیا، پنجاب پولیس کے کچھ منافق ٹک ٹاکروں نے پچھلے سوا سال میں عوام کے حقوق کا کچھ خیال کیا ہوتا، کرپشن و ظلم میں کچھ کمی آئی ہوتی، پولیس کی جانب سے عوام کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا سلسلہ تھوڑا بہت شروع ہو گیا ہوتا، خدا کی قسم مختلف اقسام کی نفرتوں کے شکار مخالف فریق کی بہاولنگر میں غیر قانونی و غیر انسانی کاروائی پر عوام ہر گز اتنا خوش نہ ہوتے، بلکہ پولیس کے ساتھ کھڑے ہوتے، پنجاب پولیس کے ٹک ٹاکروں کو محض ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ”انگور کھٹے ہیں“ کا تاثر دینے کے بجائے سنجیدگی سے یہ سوچنا چاہئے ایسے کیوں ہوا؟ پریس کانفرنس میں ماتحتوں کو دی جانے والی ترقیوں کی بات کی گئی، ان اندھا دھند ترقیوں کا پس منظر یہ ہے نگران حکومت کے قیام سے قبل پولیس کا مورال بہت ڈاؤن تھا، بے شمار ماتحت پولیس افسران یہ سمجھتے تھے عوام میں بے پناہ مقبول ایک سیاسی جماعت (پی ٹی آئی) کے خلاف اْن کا نہایت غلط استعمال کیا جا رہا ہے، ان حالات میں خدشہ تھا پولیس کہیں تقسیم نہ ہو جائے، اور فنکار پولیس افسروں کا کنٹرول اپنے ماتحتوں پر کہیں ختم نہ ہو جائے، اسی لئے پولیس کو اندھا دھند ترقیاں دینے کا فیصلہ کیا گیا، یہ پولیس ملازمین کا حق تھا جو اس سے قبل ذرا سست روی کا شکار تھا، مگر اس عمل کو اپنے ماتحتوں میں اپنی ساکھ بنانے کے لئے استعمال کیا گیا، علاوہ ازیں جپھیوں پپئیوں کا ایسا ماحول قائم کر دیا گیا جس سے پولیس کا مورال اتنا ہائی ہوگیا پولیس نے نو مئی کے واقعے کے بعد اپنے اعلیٰ افسران کے ہر جائز ناجائز حکم کی آنکھیں بند کر کے تعمیل کرنا شروع کر دی، جس گھر میں انہیں حکم دیا جاتا وہ بلاوارنٹ گھس جاتے اور بدتمیزیوں و بداخلاقیوں کے ایسے ایسے گندے مظاہرے کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ جس مقصد کے لئے اْنہیں پروموشنیں دی گئی تھیں اْس مقصد پر وہ سو فی صد پورا اتر رہے ہیں، بے شمار پروموشنیں دے کے، ماتحتوں کو جپھیاں پپئیاں کر کے مخصوص مقاصد تو حاصل کر لئے گئے مگر کسی نے نہیں سوچا اس سے محکمے کا امیج کتنا تباہ ہوا؟، کون یہ سوچے گا؟ کس کے پاس اتنا وقت ہے؟ اپنی پوسٹنگ بچانے یا اگلی اچھی پوسٹنگ لینے کے لئے کوئی بھاگ دوڑ کرے یا یہ سوچے کہ میری وجہ سے میرے محکمے کا جو بچا کھچا امیج برباد ہوا اْسے اب بحال کیسے کیا جائے؟ ممکن ہے کوئی یہ سوچ بھی رہا ہو کہ یہ امیج اب میں کس کے ذریعے بحال کروں؟ چاہت فتح علی خان کے ذریعے کروں، لاہور دے پاوے اختر لاوے کے ذریعے کروں، اللہ رکھا پیپسی کے ذریعے کروں، میاں کاشف ضمیر کے ذریعے کروں یا خواجہ سرا عاشی بٹ کے ذریعے کروں؟؟؟ کچھ ٹک ٹاکرز کہتے ہیں ”پنجاب پولیس ہماری ہے“، کچھ خواجہ سرا کہتے ہیں ”پنجاب پولیس ہماری ہے“، جواریوں اور اشتہاریوں کے دعوے بھی اسی طرح کے ہیں، ہم اس وقت کے منتظر ہیں جب اس ملک کے دانشور، شاعر، ادیب، مصور، فنکار، اساتذہ، پوزیشنیں لینے والے طلبہ اور شرفاء یہ کہہ رہے ہوں گے”پنجاب پولیس ہماری ہے“۔

The post پولیس کی پستی appeared first on Naibaat.