Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

ایک کالم ذرا ہٹ کے

ایک کالم ذرا ہٹ کے آج سیاست اور معیشت کے بجائے کسی اور موضوع پہ بات کرتے ہیں۔ عام طور پر ہم نغمے، گیت، غزل اور موسیقی کی دیگر اصناف سے لطف ...

ایک کالم ذرا ہٹ کے

آج سیاست اور معیشت کے بجائے کسی اور موضوع پہ بات کرتے ہیں۔ عام طور پر ہم نغمے، گیت، غزل اور موسیقی کی دیگر اصناف سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن بہت کم لوگ ایسے ہیں جو گیت اور غزل کے اشعار کے خالق سے بھی واقف ہوں۔ شہرہ آفاق غزل گو غلام علی کی آواز میں ”میرے شوق دا نئیں اعتبار تینوں“ اصل میں غالب کی فارسی غزل ”زمن گَرَت نہ بُوَد باور انتظار بیا“ کا منظوم پنجابی ترجمہ ہے جو صوفی غلام مصطفی تبسم ہی کے قلم سے ممکن ہو سکتا تھا۔ اس پر غلام علی کی خالص پنجابی تلفظ کے ساتھ گائیکی نے اس غزل کی مقبولیت کو چار چاند لگا دیے۔ شاعری اور موسیقی کی ایک روایت اور بھی ہے کہ ایک شاعر کا کلام تو چار دانگ عالم میں شہرت حاصل کرتا ہے اور گلوکار خوب معاوضہ حاصل کرتے ہیں لیکن سننے والوں کی اکثریت شاعر کے نام تک سے واقف نہیں ہوتی اور شاعر کے حصے میں معمولی رقم آتی ہے۔ اس کی ایک مثال استاد قمر جلالوی کی ہے کہ تمام عمر سائیکلوں کے پنکچر لگاتے رہے ان کے حصے میں آیا فقط 150 روپے ماہانہ کا سرکاری وظیفہ، جب کہ منی بیگم اور دیگر گلوکار ان کے کلام سے لاکھوں روپے کماتے رہے۔

گائیکی اور تلفظ کا بھی چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہمارے عہد کے ایک نامور قوال، موسیقار اور گلوکار نصرت فتح علی خاں، جنہوں نے عالمی سطح پر اپنے فن کا لوہا منوایا اور پاکستان کا نام اجاگر کیا، کہیں کہیں تلفظ کی غلطی کر جایا کرتے تھے۔ لیکن اس سے ان کے فن کی عظمت میں کمی نہیں آئی۔ کسے خبر تھی کی کہ فیصل آباد کی ”مائی دی جھگی“ کا رہنے والا،
جو ایک عرصے تک چھوٹے چھوٹے مزاروں اور خانقاہوں پر دو چار روپے کے نذرانوں کے عوض قوالی کرتا تھا، دنیا میں نام پیدا کرے گا اور پاکستان کی پہچان بنے گا۔ نصرت فتح علی کو ان کی فنی صلاحیتوں کے اعتراف میں واشنگٹن یونیورسٹی نے کی میوزک چیئیر فائز کیا۔ عکسی مفتی بتاتے ہیں کہ نصرت ہمیشہ سفر میں اپنے بیس ہم نواؤں کی ٹولی کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھے دور افق پر نظریں جمائے دھنیں اور موسیقی سوچتے رہتے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنی کم عمر میں قوالی سے غزل، پنجابی ٹپے، لوک گیت اور بالی وڈ کے انتہائی مشہور گانے ان کی تخلیق کا کمال ہیں۔

تلفظ کی ادائیگی پر یاد آیا کہ ضیا محی الدین یوں تو فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں لیکن عام وجہ شہرت ایک اردو کے صدا کار کی ہے، غالب اور فیض کا کلام ہو یا یوسفی صاحب کی مزاح نگاری، ان کا انداز بیاں بلا مبالغہ لاجواب ہے۔ اگرچہ ضیا صاحب انگریزی فلموں اور ڈراموں میں بھی بطور اداکار، ہدایت کار اور تخلیق کار کے طور پر جانے جاتے ہیں، لیکن پاکستان میں اپنے ٹیلی ویژن پروگرام ”ضیا محی الدین شو“ اور اردو نثر اور شعر خواں کے طور پر مشہور ہیں۔ ضیا محی الدین کی کتاب The God of My Idolatry میرے سا منے ہے، لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جس شخص کے اردو تلفظ کا ایک زمانہ معترف ہے، جس نے اردو خوانی کو ایک نئی جہت دی، اس نے اپنے مشاہدات اور تجربات قلم بند کرنے کے لیے انگریزی زبان ہی کو کیوں منتخب کیا؟ اعتراض زبان کے استعمال پر نہیں سوال یہ ہے کہ جس شخص کا تعارف اردو ادب ہو اور ہر بڑا ادبی اور ثقافتی میلہ اس کی اردو خوانی کے بغیر ادھورا سمجھا جاتا ہو وہ اسی زبان کا قرض نہ چکا سکے۔ کیا ضیا محی الدین کے نزدیک اردو صرف ذریعہ روزگار ہے؟ یا تسکین فن کا وسیلہ؟ مگر بقول رشید صدیقی مرحوم کے تو …… ”زبان کے علاوہ اردو بہت کچھ اور بھی ہے۔ جیسے ایک قیمتی ورثہ، ایک قابل قدر روایت، ایک نادر آرٹ، ایک مسحور کن نغمہ، قابل فخر کارنامہ، کوئی پیمان وفا یا اس طرح کی کتنی اور باتیں جو محسوس ہوتی ہیں لیکن بیان نہیں ہو پاتیں“۔

کچھ بات اردو کی بھی ہو جائے۔ اردو کے ساتھ ایک المیہ یہ بھی رہا ہے کہ اردو لکھنے والوں کی سماجی، سیاسی اور ادبی ترجیحات میں وہ اولیت نہیں ملی جو اس کا حق تھا۔ مثال کے طور پر علامہ اقبال کا فارسی اور اردو کلام خوابید ہ ملت کا لہو تو گرماتا رہا لیکن انہوں نے اپنے مشہور زمانہ خطبات کے لیے انگریزی زبان کو ذریعہ اظہار بنایا۔ فیض اردو کے نامور اور منفرد شاعر ہیں اور ان کے اشعار پسے ہوئے طبقات کے سیاسی شعور میں اضافے کا ذریعہ ہیں۔ لیکن ان کی سماجی حیثیت اشرافیہ کے اس طبقے سے تعلق رکھتی ہے جہاں اردو کے انقلابی اشعار پر سر دھننا ایک رواج سے زیادہ کچھ نہیں۔ فراز کی شاعری کا ایک زمانہ معترف ہے۔ لیکن سماجی طور پر وہ بھی اشرافیہ کے ہی قریب رہے۔ غالباً ضیا محی الدین کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ انہوں نے اردو ادب کے شہ پاروں کی شعر اور نثر خوانی سے نام اور رتبہ تو خوب کمایا لیکن اردو کو محدود ایک خاص حد تک ہی رکھا۔ نہ جانے کیوں؟ شاید اس وجہ سے کہ اردو غریبوں کی زبان ہے۔ جیسا کہ رضا علی عابدی نے اپنی کتاب ”اردو کا حال“ کا اختتام ان الفاظ پر کیا ”اردو محل کی زبان نہیں، دربار کی نہیں، پنجاب اور ہریانہ کی نہیں، گجرات اور دکن کی نہیں لکھنؤ اور دلی کی زبان نہیں۔ اردو غریبوں کی زبان ہے۔ یہی اس کا سب سے بڑا قصور ہے“۔

The post ایک کالم ذرا ہٹ کے appeared first on Naibaat.