Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

محسن نقوی کا نیا سفر

محسن نقوی کا نیا سفر محسن نقوی کی کامیابیوں کے سفر کا آغاز سی این این سے ہوا تھا، اس کے بعد وہ پکڑے ہی نہیں گئے، نہ وہ پکڑے جا سکتے ہیں، کی...

محسن نقوی کا نیا سفر

محسن نقوی کی کامیابیوں کے سفر کا آغاز سی این این سے ہوا تھا، اس کے بعد وہ پکڑے ہی نہیں گئے، نہ وہ پکڑے جا سکتے ہیں، کیونکہ ان میں جو عاجزی و انکساری ہے، وہ کسی بھی انسان میں ہو اللہ اس کے تمام عیبوں پر پردے ڈالے رکھتا ہے اور اس کی ساری مشکلات آسان فرما دیتا ہے، خصوصاً ایسے لوگ جو کسی بڑے مقام پر پہنچ کر بھی عاجزی ترک نہ کریں، قدرت انہیں مزید نوازتی ہے، یہ درست ہے وہ جب پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ تھے نو مئی کے واقعے کو بنیاد بنا کر پنجاب پولیس کے کچھ اعلیٰ و ادنی فنکار افسران نے بے شمار بے گناہ لوگوں پر بھی اندھا دھند ستم ڈھائے، گیہوں اتنا نہیں پسا جتنا گھن پیس گیا، اس معاملے میں محسن نقوی سے سستی یا کوتاہی شاید یہ ہوئی انہوں نے پنجاب پولیس کے فنکاروں پر حد سے زیادہ اعتماد کیا، ہماری کچھ ملکی ایجنسیاں صرف ”خواجہ سرائی“ ہی کر سکتی ہیں، کوئی غیر ملکی ایجنسی یا کوئی قابل اعتبار ملکی ایجنسی یہ تحقیقات کرے نو مئی کے واقعے کی آڑ میں پنجاب پولیس نے کتنے بے گناہ لوگوں پر ستم ڈھائے؟ کتنے بے گناہ لوگوں کو پکڑ پکڑ کے بھاری رقوم لے کے چھوڑا؟ کتنے پولیس افسران اور ان کے ماتحت اس”دھندے“ میں کروڑوں اربوں پتی ہوگئے؟ یہ تمام حقائق کھل کر سامنے آجائیں گے، ہونا ظاہر ہے اس کے بعد بھی کچھ نہیں، یہاں جو جتنا ظالم اور کرپٹ ہے اس کا ”پٹہ“ اتنا کھلا ہے، مگر ایک نظام قدرت کا بھی ہے جس میں کسی چودھری نظام دین کی کوئی مداخلت نہیں ہوتی، ہماری پنجاب پولیس کے کچھ فنکار افسروں نے محسن نقوی کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلق و لحاظ کا جتنا ناجائز فائدہ اٹھایا اس کی مثال نہیں ملتی، محسن نقوی کا یہ بڑا پن تھا انہوں نے اس بات کا بھی کبھی نوٹس نہیں لیا تھا کہ اعلیٰ پولیس افسر ان کی موجودگی میں یا ان کے سامنے کیپ تک نہیں پہنتے تھے جو رولز کے مطابق پہننا ضروری ہوتا تھا، اللہ کرے اب کچھ مداری پولیس افسروں کے چنگل سے وہ رہا ہو جائیں، یہ ان کی ساکھ کے لئے بہت ضروری ہے، اب بطور وفاقی وزیر داخلہ ان کی ذمہ داریاں بہت اہم ہیں، پہلے انہیں صرف صوبے میں کام کرنے کا موقع ملا، ان کے کچھ معاملات یا مجبوریوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ بات ماننا پڑے گی بطور نگران وزیراعلیٰ مختلف محکموں کو سنوارنے اور متحرک کرنے کی اْنہوں نے انتھک کوشش کی، کسی کو گالی نہیں دی، کسی کو معطل یا برطرف نہیں کیا، سسٹم کو سمجھتے ہوئے لوگوں کی غلطیوں کو نظرانداز کر کے اْن کی اصلاح کرتے رہے اور آگے بڑھتے رہے، ان کے دور میں ترقیاتی منصوبے جس تیزی سے مکمل ہوئے اپنی مثال آپ ہیں، انہیں یقینا ایک ”بڑی سرپرستی“ میسر تھی، مگر اس طرح کی بڑی سرپرستیاں ماضی میں بھی بہت سے حکمرانوں کو میسر رہیں جنہوں نے اس کے فوائد اپنی ذات تک محدود رہے، شہباز شریف اپنی پہلی وزارت اعلیٰ کے دور میں واقعی بہت متحرک تھے، اب ان کے وہ جذبے نہیں رہے، ایک ان کی عمر اب زیادہ ہوگئی ہے اوپر سے حالات بھی اب ایسے موافق نہیں ہر کام اپنی مرضی سے وہ کر سکیں، پاکستان میں وزیر خارجہ و داخلہ وغیرہ ہمیشہ کسی اور کی مرضی کے ہی ہوتے ہیں، وزیراعظم کے پاس یہ اختیار ہی نہیں ہوتا یہ عہدے اپنی مرضی سے کسی کو وہ دے سکے، بعض اوقات منت ترلہ کر کے اپنے بندوں کو ان عہدوں پر وہ ایڈجسٹ تو کروا لیتا ہے مگر کام وہ کسی اور کی منشا کے مطابق ہی کرتے ہیں، اس وقت حالات یہ ہیں بے چارہ وزیراعظم اپنی مرضی سے سوشل ویلفیئر، امور خواتین، ماحولیات، مذہبی امور اور ایسے کچھ اور پھس پھسے محکموں کے وزراء اپنی مرضی سے مقرر کر لے یہ بھی اس کی بڑی جیت ہے، ہمارا خیال تھا لوگوں کو تبدیلی کا خواب دیکھا کر اقتدار میں آنے والا شخص پنجاب میں ایسا وزیراعلیٰ مقرر کرے گا جو ”شہباز سپیڈ“ کو پیچھے چھوڑ جائے گا، اس نے ایسا وزیراعلیٰ بزدار یا بودار مقرر کیا جس کے بعد لوگ اس یقین میں مبتلا ہو گئے ”شہباز سپیڈ“ کو پیچھے چھوڑنے والا کوئی مائی کا لعل کبھی پیدا ہی نہیں ہوگا، یہ ”مائی کا لعل“ محسن نقوی کی صورت میں پیدا ہوگیا، بطور نگران وزیراعلیٰ پنجاب اپنے انتہائی متحرک ہونے کی وجہ سے جو نام اور مقام انہوں نے بنایا ہماری خواہش ہے بطور وفاقی وزیر داخلہ اس میں اضافہ ہو، وزارت داخلہ کے بہت سے شعبوں میں انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہے، خصوصاً ایف آئی اے اور پاسپورٹ میں جو ”ڈاکہ زنیاں“ گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہیں انہیں کم کرنے کی ضرورت ہے، ختم کرنے کی ضرورت ہے میں نے اس لئے نہیں کہا ایک کرپٹ اور کریمینل سسٹم کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے محترم وزیر داخلہ کو میں کسی آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہتا، عمومی تاثر ہے کہ ایف آئی اے اور پاسپورٹ میں بغیر رشوت دئیے کوئی کام نہیں ہوتا چاہے وہ کتنا ہی جائز کیوں نہ ہو، جائز کام کا الگ ریٹ ہے ناجائز کام کا الگ ہے، دونوں محکموں میں ایجنٹ مافیا کا راج ہے، اس راج کو ختم کرنے کا اہتمام محسن نقوی نے اگر کر لیا ان کی عزتوں و شہرتوں کا چراغ ہمیشہ جلتا رہے گا، ورنہ یہاں کتنے وزیر داخلہ آئے چلے گئے کسی کا نام بھی کسی کو معلوم نہیں، حال ہی میں ہنڈی کا ناجائز دھندہ کرنے والوں پر سخت ہاتھ ڈالا گیا ہے، یہ ”سخت ہاتھ“ پہلے بھی ڈالا جاتا رہا ہے پھر کسی نہ کسی خفیہ قوت یا سب سے بڑی پیسے کی قوت کی بنیاد پر یہ ہاتھ ڈھیلا پڑ جاتا ہے، وزیر داخلہ کو چاہئے اب ایسی حکمت عملی اپنائیں یہ ہاتھ کبھی ڈھیلا نہ پڑے، ہنڈی کا دھندہ کرنے والوں پر ہاتھ ڈالا جائے اور ایف آئی اے میں ان کی سرپرستی کرنے والے عناصر پر پوری بانہہ (بازو) ڈالی جائے، دو چار ایماندار افسران اگر ایف آئی اے میں ہیں اْن پر مشتمل ایک کمیٹی ڈالی جائے جو اس کی تحقیقات کرے ایف آئی اے کے کون کون سے افسران و ملازمین ماضی میں اس دھندے کی سرپرستی فرماتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے؟، اسی طرح کی کاروائی انسانی اسمگلنگ میں ملوث ان درندوں اور ایف آئی اے میں ان کے سرپرستوں کے خلاف بھی مستقل بنیادوں پر کی جائے جنہوں نے کئی گھر اجاڑ دئیے، اس طرح کے سانحے جب بھی ہوتے ہیں کچھ دنوں کے لئے ایف آئی اے و دیگر ادارے کچھ متحرک ہو جاتے ہیں کچھ ہی دنوں بعد جب میڈیا اور سوشل میڈیا پر معاملہ گول ہو جاتا ہے وہ پھر خواب خرگوش کے مزے لوٹنے لگتے ہیں، وفاقی وزیر داخلہ یہ مشن بنا لیں انسانی اسمگلنگ میں ملوث درندے دنیا بھر میں جہاں کہیں ہیں انہیں گرفتار کر کے پاکستان لایا جائے، سوشل میڈیا پر ان کی تصویریں لگائی جائیں تاکہ وہ جہاں بھی ہوں کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نہ رہیں، یہ دو چار کام میرے عزیز چھوٹے بھائی نے اگر کر لئے اس کے بعد متوقع طور پر کبھی پاکستان کا نگران وزیراعظم انہیں مقرر کیا گیا لوگ شاید خوش ہی ہوں گے، پنجاب میں ”شہباز سپیڈ“ کو انہوں نے پیچھے چھوڑ دیا، مرکز میں وہ ”شہباز سپیڈ“ کو اس لئے پیچھے نہیں چھوڑ سکتے کہ مرکز میں کوئی ”شہباز سپیڈ“ ہے ہی نہیں۔

The post محسن نقوی کا نیا سفر appeared first on Naibaat.