Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

یونان کی کہاوت پاکستان میں سچی نہیں ہوئی

یونان کی کہاوت پاکستان میں سچی نہیں ہوئی حضرت عیسیٰؑ کی آمد سے تقریباً پانچ سو برس پہلے کی بات ہے کہ ایتھنز یونان کے پوش علاقے میں ایک اعل...

یونان کی کہاوت پاکستان میں سچی نہیں ہوئی

حضرت عیسیٰؑ کی آمد سے تقریباً پانچ سو برس پہلے کی بات ہے کہ ایتھنز یونان کے پوش علاقے میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ امیر خاندان آباد تھا جن کے لوہے کے کارخانے تھے۔ اُن کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام ”سوفو کلیز“ رکھا گیا۔ دنیا کے قدیم ترین لٹریچر میں ٹریجڈی کے تین ڈرامے اب تک بہت مشہور ہیں۔ انہی میں سے ایک ”اینٹی گنی“ ہے جس کا رائٹر ”سوفوکلیز“ تھا۔ اس ڈرامے کا نچوڑ اس کا آخری جملہ ہے جو عقل و دانش کے حیرت انگیز فلسفے پر ختم ہوتا ہے۔ یہ جملہ اب ایک انٹرنیشنل کہاوت بن چکا ہے۔ ڈرامے اینٹی گنی کی تھیٹر میں پیشکش کے تھوڑے ہی عرصے بعد اس کے رائٹر سوفوکلیز کو انعام کے طور پر اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز کر دیا گیا۔ سوفوکلیز  نے 91 برس کی عمر پائی۔ ایک روایت کے مطابق اُس کی موت کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ ڈرامے اینٹی گنی کا وہی آخری جملہ لہک لہک کر پڑھ رہا تھا کہ سانس رک جانے کی وجہ سے مر گیا۔ ڈرامہ اینٹی گنی کی کہانی کے مطابق دو بھائی تخت کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے جنگ کرتے ہیں۔ دونوں شدید زخمی ہو کر میدان جنگ میں ہی مر جاتے ہیں۔ اُن میں سے ایک بھائی کا وفادار درباری تخت پر قبضہ کر لیتا ہے۔ وہ اعلان کرتا ہے کہ جنگ میں مرنے والے اس کے مالک کا دشمن بھائی جو خود بھی جنگ میں مر چکا ہوتا ہے غدار ہے اس لیے اُسے ذلت آمیز سزا ملنی چاہیے۔ نئے بادشاہ کے فرمان کے مطابق اُس کے مرے ہوئے مالک کی تجہیز و تکفین شاہی پروٹوکول اور مذہبی رسومات کے ساتھ کی جاتی ہے جبکہ دشمن مرے ہوئے بھائی کی لاش کو دفنانے کے بجائے کتوں، گِدھوں اور کیڑے مکوڑوں کے کھانے کے لیے جنگل میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اُس دور میں کسی بھی لاش کے ساتھ نہ دفنائے جانے کا یہ سلوک بدترین ذلت تصور کیا جاتا تھا۔ اُن دونوں مرحوم بھائیوں کی دو بہنیں تھیں جن میں سے ایک کا نام اینٹی گنی تھا۔ اینٹی گنی نے اپنی بہن سے کہا کہ دوسرا بھائی بھی ہمارا بھائی ہی تھا، ہمیں اُس کی لاش کی یہ تذلیل روکنی چاہئے اور کیوں نہ ہم چپ چاپ رات کے اندھیرے میں مذہبی رسومات کے بعد اُس کو بھی دفنا دیں۔ جب دوسری بہن نے بادشاہ کے خوف کے باعث انکار کیا تو اینٹی گنی نے اکیلے ہی ایسا کرنے کا ارادہ کر لیا۔ اگلی صبح بادشاہ اپنے فرمان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے شہر کے اکابرین کو اکٹھا کرتا ہے۔ وہ اکابرین بادشاہ کی خوشامد کے پیش نظر اُس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ عین اُسی وقت ایک خوفزدہ سنتری دربار میں داخل ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ بادشاہ سلامت اُس غدار کی لاش کو رات کے اندھیرے میں کسی نے دفنا دیا ہے۔ بادشاہ غصے سے کانپتے ہوئے سنتری کو حکم دیتا ہے کہ جا کر پتا کرو کہ میری یہ حکم عدولی کس نے کی؟ اگر تم مجرم نہ پکڑ سکے تو تمہاری گردن اڑا دی جائے گی۔ بادشاہ کے غضب کے باعث دربار میں خوف و ہراس پھیلا ہوتا ہے کہ وہی سنتری اینٹی گنی کو لے کر دربار میں حاضر ہوتا ہے۔ بادشاہ اینٹی گنی پر دھاڑتے ہوئے پوچھتا ہے کہ کیا تم نے ایسا کیا؟ اینٹی گنی ڈرے بغیر ہاں میں جواب دیتی ہے۔ بادشاہ اُس کے لیے سزائے موت کا اعلان کرتا ہے۔ ٹھیک اُسی وقت دیوتائوں کا ایک معزز نابینا نمائندہ دربار میں آتا ہے اور بادشاہ کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ دیوتا تمہارے اس فیصلے سے سخت ناراض ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ تم لاش کو مذہبی رسومات کے ساتھ دفنا دو اور اینٹی گنی کو چھوڑ دو ورنہ تم پر عذاب نازل ہو گا۔ بادشاہ اپنے غرور اور ضد پر قائم رہتے ہوئے دیوتا کے نمائندے کو بے عزت کر کے دربار سے نکال دیتا ہے۔ دیوتا کا نمائندہ جاتے ہوئے کہتا ہے کہ تمہیں اس کی سزا بھگتنا پڑے گی۔ دیوتا کے نمائندے کی یہ بددعا سن کر بادشاہ کے علاوہ ہر فرد سہم جاتا ہے۔ بادشاہ اپنے بیٹے کو حکم دیتا ہے کہ وہ اینٹی گنی کو سزائے موت دے۔ بادشاہ کا بیٹا اینٹی گنی سے محبت کرتا ہے اِس لیے وہ بادشاہ کو ایسا نہ کرنے کا کہتا ہے۔ بادشاہ اور اُس کے بیٹے میں تلخ کلامی ہوتی ہے۔ بیٹا بادشاہ کو چھوڑ کر دربار سے چلا جاتا ہے۔ شاہی سپاہی اینٹی گنی کو اندھیرے غار میں بند کرنے کے لیے لے جاتے ہیں۔ ملکہ دربار میں آ کر اپنے بیٹے کی محبت کی وجہ سے بادشاہ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کا کہتی ہے لیکن بادشاہ انکار کر دیتا ہے۔ اگلی صبح بادشاہ اینٹی گنی کے بارے میں معلوم کرنے اندھیرے غار کی طرف جاتا ہے۔ جونہی وہ غار کے کنارے پر پہنچتا ہے تو داروغہ اُسے بتاتا ہے کہ اینٹی گنی نے گلے میں پھندہ ڈال کر خودکشی کر لی اور اُس کی خودکشی کو برداشت نہ کرتے ہوئے بادشاہ کے بیٹے نے بھی اپنے آپ کو تلوار سے ہلاک کر لیا ہے۔ جب ملکہ کو اپنے بیٹے کی ہلاکت کی خبر ملتی ہے تو وہ بھی اپنے پیٹ میں خنجر گھونپ لیتی ہے اور مرتے وقت بادشاہ کو مخاطب کر کے کہتی ہے کہ پورے خاندان کی تباہی کا باعث تمہارا غرور اور ضد تھی۔ پورے خاندان کی تباہی کے بعد بادشاہ کو یہ سمجھ آ جاتی ہے کہ اُسے اپنے غرور اور ضد کی سزا ملی اور وہی قصوروار ہے۔ اس ڈرامے کا حیرت انگیز عقل و دانش والا سادہ سا آخری جملہ یہ ہے کہ ”غرور اور ضد کی سزا ضرور ملتی ہے لیکن اُس سزا سے عقل آ جاتی ہے“۔ دنیائے عالم نے عقل و دانش کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے سبق سیکھ کر ترقی کی بڑی بڑی منزلیں طے کیں۔ ہمارے حکمرانوں نے غرور اور ضد کی سزائیں پانے کے باوجود سبق نہیں سیکھا اور ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے بھی سبق نہیں سیکھا۔ ہمارے سابق اور موجودہ اکثر سیاست دانوں کو غرور اور ضد کی سزا ملتی ہے لیکن اُس سزا سے انہیں عقل نہیں آتی۔ یونان کی یہ کہاوت پاکستان میں اب تک سچی نہیں ہوئی۔ آخر اِس سے کب سبق سیکھا جائے گا؟

The post یونان کی کہاوت پاکستان میں سچی نہیں ہوئی appeared first on Naibaat.