Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

پولیس یونیفارم، مریم کیلئے بڑا چیلنج!

پولیس یونیفارم، مریم کیلئے بڑا چیلنج! پنجاب کی خاتون وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے پولیس کی یونیفارم پہن کرپاسنگ آؤٹ پریڈ کی سلامی لی، مخالف ...

پولیس یونیفارم، مریم کیلئے بڑا چیلنج!

پنجاب کی خاتون وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے پولیس کی یونیفارم پہن کرپاسنگ آؤٹ پریڈ کی سلامی لی، مخالف پی ٹی آئی نے اسے بچگانہ فعل قرار دیاہے ظاہر ہے وزیراعلیٰ کی سطح پر کوئی ایسی حرکت نہیں کر سکتا اس لیے خوش گمان ہونا چاہئے کہ اس کا جذبہئ بحرکاء پولیس یونیفارم کو عظمت کا نشان بنانے، خود پولیس کے کرپٹ عناصر کے ہاتھوں اس یونیفارم کی جو عزت پامال ہوچکی ہے اس کی بحالی کے عزم صمیم کا عملی اظہار تھا لیکن مجھ جیسوں کی یہ خوش گمانی محض یونیفارم زیب تن کرنے سے برقرار نہیں رہے گی بلکہ اس کیلئے عملی اقدامات کا بھاری پتھر اٹھانا پڑے گا، وہ ہے موجودہ پولیس سسٹم کی اوورہالنگ یا مکمل تبدیلی، جو محض نصیحتوں اور احکامات کے ذریعہ ممکن نہیں بلکہ دیوانے کا خواب ہے، اگر ایسا سوچا جائے۔

یوں تو اسلامی تاریخ میں پولیس کا محکمہ حضرت عمر فاروقؓ نے قائم فرمایا تھا۔ اسی طرح اشتمال اراضی، مالیاتی نظام، عدالتی سسٹم اور سماجی سروسز کے نظام کی بنیاد بھی اس دورمیں رکھی گئی آج بھی سیکنڈے نیوین ممالک میں سماجی سروسز کا نظام عمرلدنی کے نام سے شہریوں کیلئے مبدائے فیض ہے بہرحال برصغیر میں انگریزوں کے قبضے بعد ہندوستانیوں کو دبا کر رکھنے کیلئے برطانیہ میں رائج میٹرپولیٹن پولیسنگ نظام کی بجائے آئرش کانسٹیبلری سسٹم سے بھی بڑا سسٹم نافذ کردیا جس کے تحت پورے ضلع کی پولیس اپنے ضلعی سربراہ ایس پی، ایس ایس پی یا موجودہ دور میں نام تبدیل کرکے ڈی پی او کی بجائے ڈپٹی کمشنر کے احکامات کے تابع ہے۔ جسے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے اختیارات بھی حاصل ہیں۔ حالانکہ ڈپٹی کمشنر کی طرح ایس پی، ڈی ایس پی بھی انگریز ہی ہوتے تھے۔ پورے ضلع کے عوام پرڈپٹی کمشنر کارعب ودبدبہ طاری رہتا کیونکہ ضلع کی پولیس جس کے ماتحت ہو وہ کیا ”بلا“ چیز ہو سکتا ہے یہ دراصل نوآبادیاتی نظام کو مستحکم رکھنے کا حربہ تھا، پاکستان بننے کے بعد تادم تحریر اس نظام سے عوام کو چھٹکارہ نہیں دلایا جاسکا۔ جو عوام کی جان ومال،عزت وآبرو کی محافظت کی بجائے ان کیلئے انگریز دور کی طرح باعث آزاد ہے۔ مریم نواز اگر اس فرسودہ عوام کو دبانے وکچلنے والے نظام کو تبدیل کرسکیں تو گویا یونیفارم زیب تن کرنے کا حق ادا کردیا۔

تاہم یہ کوئی راتوں رات کی انتظامی حکم سے انجام پانے والا کام نہیں ہے آج سے عملی کوشش کردی جائے تو پانچ سال کے اندر یہ کوشش برگ وبار لاسکتی ہے۔

سب سے پہلے تو یہ کہ اسسٹنٹ سب انسپکٹر کے بنیادی تعلیم ایف اے ہے ایک کانسٹیبل کی بی اے کردی جائے جس کی بنیادی تنخواہ 50ہزار روپے ماہانہ مقرر کی جائے حکومتی سطح پر عام مزدور کی تنخواہ 32ہزار روپے مقرر کی گئی ہے اکثر اخبارات میں خبر آتی ہے کہ نائب قاصد کی ملازمت کیلئے بڑی تعداد میں بی اے اور ایم اے پاس نوجوان پہنچ گئے۔ کانسٹیبل کی جانب یقیناًنائب قاصد سے کئی گنا عزت والی جاب ہے پولیس ٹریننگ کا فرسودہ نظام بدلا جائے جس کا ایک پولیس آفیسر نے پنجابی کے الفاظ میں یوں اظہار کیا، ”ہتھی پے جاؤ تے پیری پے جاؤ“ وضاحت یوں کہ ہرکسی پر رعب جانے کیلئے اس کی وجہ بلاوجہ بے عزتی کرو، ہلکی سی چوں چراں پر تھپڑ رسید کرو، ضرورت سمجھوتو تشدد بھی کیا جاسکتا ہے اور لحاظ مروت سے بے بیگانہ ہو جاؤ لیکن اگر محسوس ہو کہ غلط جگہ ہاتھ پڑ گیا ہے اور لینے کے دینے پڑسکتے ہیں، تو بلاجھجک اس کے پاؤں پکڑ لو، یہ بات ذہن میں رکھ کر جائزہ لیا تو سوفیصد درست ثابت ہوئی۔

ہم ہرمعاملے میں انگریز کی نقل کرتے ہیں ہمارا حکومتی، عدالتی، پارلیمانی اور عسکری نظام سب برطانیہ کی خوشہ چینی سے عبارت ہے اس لیے پولیس کی ٹریننگ کیلئے بھی برطانوی پولیس کے ریٹائرڈ حکام کی خدمات حاصل کی جائیں ان کے ذریعہ ملک میں میٹروپولیٹن پولیسنگ نظام کو رائج اور کامیاب بنایا جاسکتا ہے اگر چند لمحوں کی خوشی کیلئے وقت ضائع کرنے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مقاصد کی آبیاری کرنے والے فضول کھیل کرکٹ کیلئے بھاری معاوضوں پر کوچ بلائے جاسکتے ہیں تو پولیس ٹریننگ کیلئے برطانوی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں۔ پاکستان میں مجسٹریٹی نظام ختم کرکے میٹروپولیٹن پولیسنگ سسٹم کا آغاز کیسے کیا جائے اس سلسلے میں اچھی شہرت رکھنے والے سابق پولیس حکام ذوالفقار چیمہ، عمر ورک، شعیب سڈل اور دیگر پر مشتمل ایک مشاورتی کمیٹی بنائی جاسکتی ہے مجھے یقین ہے اس قومی خدمت کیلئے یہ حضرات بلاکسی معاوضہ بلکہ خود پلے سے بھی کچھ خرچ کرکے خدمات انجام دے سکتے ہیں۔

لیکن پیش نظر رہے جس طرح یہ تبدیلی بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں آشان ہے پنجاب اور سندھ میں شدید مزاحمت کا سامنا ہو سکتا ہے (ن)لیگ اورپیپلزپارٹی کے زمیندار ایم این اے اور ایم پی اے، بشمول اپوزیشن پارٹیوں سے تعلق رکھنے والا زمیندار طبقہ، دونوں صوبوں کی بیورو کریسی، موجودہ سسٹم سے جن کی ”بادشاہتیں“ قائم ہیں، تیسرے کرپٹ پولیس حکام اور ان کے ”دست شفقت“ تلے جرائم پیشہ افراد، اس کے علاوہ جو چیز سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے وہ ہے مخالف سیاسی جماعتوں کا بغض وعناد، یعنی یہ منفی سوچ کہ اگر حکمران پارٹی کوئی ایسا کام کرنے کامیاب ہوگئی جو اس کی مقبولیت اور مزید مدت اقتدار کی راہ ہموار کردے گا تو ہمارا کیا بنے گا یعنی پھر ہماری اقتدار کی باری کب آئے گی اس لیے متذکرہ اچھے کام کو ہونے ہی نہ دیا جائے۔

مریم بی بی یاد رہے یہ وہ پہاڑی گھاٹیوں جیسی مسائل مشکلات ہیں جنہیں پولیس نظام میں حقیقی تبدیلی کیلئے عبور کرناپڑے گا۔ تاہم اگر عزم راسخ ہو تو راہ کی مشکلات سے آگاہی وادراک راہ آسان کرنے کا ذریعھ بھی بن جایا کرتے ہیں تاریخ کے سینے میں بے شمار ناممکنات کے ممکنات میں ڈھلنے کے واقعات محفوظ ہیں۔ میری خواہش ہے میڈیا کے وابستگان اگر پنجاب میں پولیس نظام کی اصلاح کے لئے عملی اقدامات کا آغاز ہوتا ہے تو قومی واخلاقی ذمہ داری جان کر پورے اخلاص کے ساتھ معاون ومددگار ثابت ہوں کیونکہ اس کی کامیابی سے (ن) لیگ چلو ایک دوبار سیاسی فائدہ اٹھالے گی ورنہ ہمیشہ تو پنجاب کے عوام ہی فیض یاب رہیں گے۔

اس حقیقت سے بھی انکار ناممکن ہے کہ مریم نواز نے یہ یونیفارم زیب تن کرکے خود کوبڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے لیکن اگرپولیس نظام میں تبدیلی کے سلسلے میں اقدامات کے حوالے سے عوام کو بھی ساتھ ساتھ اعتماد میں لیا جاتا رہے تو عوامی حمایت کی قوت سے مزاحمتی عناصر کو ناکام بنانا مریم نواز کیلئے بے حد آسان بھی ہوسکتا ہے مشکلات کے باوجود پنجاب میں کامیابی کے امکانات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہاں زمینداروں اور بیوروکریسی کی گرفت اتنی مضبوط نہیں ہے جتنی سندھ میں ہے، اس لیے سندھ میں تو ایسی کسی کوشش کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ یہ اپنے آپ کو خود ہی ”کمزور“ کرنے کے مترادف ہوگا اور ظاہر ہے زمیندار اور وڈیرے یہ کب چاہیں گے۔

جب سے ہوش سنبھالا کسان اور اس کے بیوی بچوں کی حالت اور لمحہ موجود ہے اس کی حالت زارمیں کوئی فرق نہیں دیکھا غالباً ہر فصل پر کسان کا معیار زندگی بلند کرنے کے نام پر سرکاری قیمت خرید میں اضافہ کرایا جاتا ہے مگر عملاً معیار زندگی زمیندار کا بلند سے بلند تر ہی دیکھا ہے حسرت ہی ہے کبھی کسان یا ہاری کو بھی فیض یاب ہوتے دیکھا جائے۔

The post پولیس یونیفارم، مریم کیلئے بڑا چیلنج! appeared first on Naibaat.