Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

پنجاب سپیڈ…!

پنجاب سپیڈ…! موجودہ وزیرِاعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف تین بار پنجاب کے وزیرِاعلیٰ رہے ہیں۔ پہلی بار فروری 1997ء سے اکتوبر 1...

پنجاب سپیڈ…!

موجودہ وزیرِاعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف تین بار پنجاب کے وزیرِاعلیٰ رہے ہیں۔ پہلی بار فروری 1997ء سے اکتوبر 1999ء تک ، دوسری بار 2008ء سے 2013ء تک اور تیسری بار2013ء سے 2018تک۔ اُن کے وزارتِ اعلیٰ کے ان ادوار میں اُن کے بارے میں یہ تاثر ابھرا کہ وہ فیصلہ سازی میں ہی تیزی نہیں دکھاتے بلکہ فیصلوں پر عمل در آمد میں بھی بہت تیزی اور مستعدی سے کام لیتے ہیں۔ ان کی اسی خصوصیت کی بنا پر اُن کے بارے میں ’’شہباز سپیڈ‘‘ کی اصطلاح معروف ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی وزارتِ اعلیٰ کے ادوار میں صوبے میں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے مکمل ہوئے تاہم ہر کمال را زوال کے مترادف 2018ء میں ان کے اقتدار کا خاتمہ ہوا اور2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں تحریکِ انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو سائیں عثمان بزدار نے وزارتِ اعلیٰ کا منصب سنبھالا۔ وہ تقریباً پونے چار سال اس منصب پر فائز رہے۔ اُن کے دور میں ترقیاتی منصوبے مکمل ہوئے یا نہیں ایک کام بڑی تیز رفتاری سے ہوتا رہا۔ وہ نوکر شاہی یا اعلیٰ سرکاری افسران کی تقرریوں اور تبادلوں کا کام تھا۔ چیف سیکرٹری پنجاب سے لے کر آئی جی پنجاب، مختلف محکموں کے صوبائی سیکرٹریوں سے لے کر مختلف ڈویژنوں کے کمشنر اور ڈی پی اوز اور مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز سے لیکر سی پی اوز تک تقرریوں اور تبادلوں کی لاکھوں کروڑوں کی بولیوں کے ایسی لوٹ سیل لگی رہی جس کی پنجاب کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی اور اس سے سائیں بزدار سمیت بہت ساروں نے خوب ہاتھ رنگے۔ خیر اپریل 2022ء میں قومی اسمبلی میں عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں ان کی حکومت ختم ہوئی تو پنجاب میں سائیں عثمان بزدار کو بھی مستعفی ہونا پڑا۔ کچھ عرصے کے لیے حمزہ شہباز نے وزارتِ اعلیٰ کا منصب سنبھالا لیکن وہ بوجوہ اپنا کوئی رنگ نہ جما سکے۔ ان کے بعد وزارتِ اعلیٰ کا ہُما چودھری پرویز الٰہی کے سر پر ضرور بیٹھا۔ سیاست کے میدان کے پرانے شناور ہونے اور اپنے چہیتے صاحبزادے مونس الٰہی کی پھرتیوں اور ترقیاتی منصوبوں میں خصوصی دلچسپیوں کے باوجود وہ بھی اپنے نام کے ساتھ کسی طرح کی تیز رفتاری یا سپیڈ کا کوئی سابقہ یا
لاحقہ نہ لگا سکے۔ جنوری 2023ء میں پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد نگران حکومت کا قیام عمل میں آیا اور جناب محسن نقوی نے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا منصب سنبھالا تو بلا شبہ پنجاب میں فیصلہ سازی ہی میں تیزی نہ آئی بلکہ منصوبوں پر عمل درآمد میں بھی بہت تیزی آئی۔ نگران حکومت کا مینڈیٹ اور اختیارات محدود ہونے کے باوجود نگران وزیرِ اعلیٰ محسن نقوی اور ان کی کابینہ کے بعض ارکان نے خوب ’’چوکے، چھکے‘‘ لگائے۔ تعمیر و ترقی کے منصوبوں کی منظوری، اجرا اور ان کی تکمیل کے ساتھ کڑی نگرانی اور مانیٹرنگ کا سلسلہ زور و شور سے چلتا رہا۔ اس طرح پنجاب میں جناب محسن نقوی کے نام سے وابستہ ایک نئی سپیڈ متعارف ہوئی جو ماضی کی ’’شہباز سپیڈ‘‘ کے مقابلے میں بعض حوالوں سے زیادہ معروف ہوئی۔
فروری کے عام انتخابات کے نتیجے میں جناب محسن نقوی کی 13 ماہی نگران حکومت کا دور ختم ہوا تو اقتدار ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کے حصے میں آیا۔ محترمہ مریم نواز نے پنجاب کی وزیرِاعلیٰ کا منصب سنبھالا۔ انہوں نے آتے ہی خوب بھاگ دوڑ اور تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا۔ ایک دن میں کئی کئی اجلاس، نِت نئے فیصلے، فوٹو سیشن اور بہت کچھ۔۔۔ اس طرح محترمہ مریم نواز کی حکومت کے تیزی سے فیصلے کرنے، ہدایات دینے اور بھاگ دوڑ کے حوالے سے ’’پنجاب سپیڈ‘‘ کے تحت نئی اصطلاح معروف ہوئی ہے۔ ’’پنجاب سپیڈ‘‘ کے تحت فیصلوں پر عمل در آمد کی نوعیت کیا ہے، اب تک اس کے کیا اثرات سامنے آئے ہیں اور عوام الناس میں اس کے بارے میں کیا ردِ عمل ہے، یہ ایسے امور ہیں جن کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
محترمہ مریم نواز اور ان کی حکومت نے پنجاب میں اقتدار سنبھالا تو اس کے ساتھ ہی رمضان المبارک کا آغاز ہو گیا۔ وزیرِ اعلیٰ محترمہ مریم نواز کی طرف سے پنجاب میں کم آمدن افراد کے لیے 30 ارب روپے کے تاریخ ساز ’’رمضان پیکیج‘‘ کا اعلان کیا گیا۔ اس کے تحت خوراک کی اشیاء کم آمدن اور مستحق افراد کے گھروں تک پہنچانے کے دعوے کیے گئے لیکن ان دعوئوں پر کس حد تک عمل در آمد کیا گیا یہ سب کے سامنے ہے۔ خوراک کے تھیلوں کی تقسیم کا انتہائی ناقص انتظام، لوگوں کی لمبی قطاریں، بھگدڑ، افراتفری، دھکم پیل اور کھینچا تانی، یہ مناظر تقریباً ہر جگہ دکھائی دیتے رہے۔ پھر کیا یہ ضروری تھا کہ خوراک کے پولی تھین تھیلوں پر مسلم لیگ کے قائد میاںنواز شریف کے چہرے کا عکس ابھارا جاتا۔ 30 ارب روپے حکومت کے خزانے سے خرچ ہوئے، کسی سیاستدان یا سیاسی گھرانے کے ذاتی بینک بیلنس سے نہیں۔ آخر اس طرح کی سستی پبلسٹی کی ضرورت ہی کیا تھی۔ پھر انہی دنوں محترمہ وزیرِاعلیٰ کی طرف سے مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کو کنٹرول کرنے اور قیمتوں کی مانیٹرنگ کے لیے پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال کرنے کے اعلانات بھی سامنے آئے۔ یہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں کہاں تھیں اور انہوں نے روزمرہ اشیائے صرف کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے۔ یہی کہا جا سکتا ہے کہ رمضان المبارک کے دوران مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی پہلے سے زیادہ رہی اور متعلقہ لوگوں نے اس سے خوب ہاتھ رنگے۔
پچھلے دنوں لاہور میں بورڈ امتحانات میں ’’بوٹی مافیا‘‘ کے خلاف صوبائی وزیرِ تعلیم کے امتحانی مراکز پر چھاپوں اور لاہور تعلیمی بورڈ کے بعض اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی کا بہت چرچا ہوا۔ میڈیا میں اس کی خوب تشہیر بھی ہوئی۔ اچھی بات ہے ’’بوٹی مافیاز‘‘ کو کیفرِ کردار تک پہنچانا ضروری ہے لیکن کیا ’’بوٹی مافیا‘‘ صرف لاہور میں سرگرم ہے۔ کیا مخصوص امتحانی مراکز پر ڈیوٹی لگوانے کے لیے امتحانی مراکز کے ’’سودے‘‘ صرف لاہور میں ہوتے ہیں، نہیں جناب ایسا نہیں ہے، ہر جگہ بوٹی مافیا سرگرم ہے۔ ہر جگہ امتحانی مراکز کے سودے ہوتے ہیں۔ ہر جگہ مخصوص تعلیمی اداروں کے ذمہ داران کی طرف سے اپنے تعلیمی اداروں کے مثالی نتائج دکھانے کی دوڑ میں تعلیمی بورڈ کے ذمہ داران کو ترغیبات اور تحریصات سے کام لیا جاتا ہے۔ پورے صوبے میں اس وبا کا جو ہمارے تعلیمی نظام اور ہمارے تعلیمی معیار کو جڑوں سے کھوکھلا کر رہی ہے قلع قمع کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز نے پولیس کی وردی میں ملبوس ہو کر پولیس دستوں کی پاسنگ آئوٹ پریڈ کی سلامی لی ہے اور خطاب کیا ہے، کیا ایسا ضروری تھا؟ کوئی بات جچی نہیں۔ پھر اُن کی وزیرِ اطلاعات محترمہ عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ سربراہ ِ مملکت فورسز کی وردی پہنتے رہتے ہیں یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ محترمہ وزیرِ اطلاعات کو کون بتائے کہ محترمہ مریم نواز سربراہ ِ مملکت نہیں ہیں بلکہ وہ ایک صوبائی حکومت کی سربراہ ہیں۔ خیر یہ ایک جملہ معترضہ ہی سہی، کہنے کا مطلب ہے کہ معاملات کو سنجیدگی سے لیا جائے اور جو فیصلے ہوں اُن پر عمل درآمد بھی کیا جائے۔ پھر ’’پنجاب سپیڈ‘‘ کا تاثر قائم ہو گا۔

The post پنجاب سپیڈ…! appeared first on Naibaat.