Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

حافظ کی جماعت

حافظ کی جماعت میں جمخانہ سے پروفیسر نعیم مسعود کی میزبانی میں پنجاب کے نوجوان وزیر تعلیم رانا سکندر حیات کے ساتھ اہل علم کی محفل سے نکلا تو...

حافظ کی جماعت

میں جمخانہ سے پروفیسر نعیم مسعود کی میزبانی میں پنجاب کے نوجوان وزیر تعلیم رانا سکندر حیات کے ساتھ اہل علم کی محفل سے نکلا تو میرا خیال تھا کہ میں فرحان شوکت ہنجرا سے کئے ہوئے وعدے کے مطابق نماز مغرب جامعہ منصورہ میں ہی ادا کر سکوں گا جس کے فوراً بعد جماعت اسلامی پاکستان کے نومنتخب امیر حافظ نعیم الرحمان کی تقریب حلف برداری تھی مگر جیسے ہی میں نے وحدت روڈ سے ملتان روڈ کی طرف مڑنا چاہا تو ٹریفک بلاک تھی۔ حافظ نعیم الرحمان کی حلف برداری میں شرکت کے لئے لگ رہا تھا کہ پورا شہر ہی اُمڈ آیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ محترم سراج الحق کی حلف برداری کے موقعے پر مجھے منصورہ ہسپتال میں پارکنگ مل گئی تھی مگر اب تو ہسپتال کے گیٹ سے بھی بہت آگے تک گاڑیاں ہی گاڑیاں پارک تھیں (شائد جماعت والے زیادہ امیر ہو گئے ہیں)۔ ایسے میں نور الہدیٰ نے مجھے مشورہ دیا کہ گاڑی سڑک کے طرف پارک کر دیتے ہیں، مجھے میٹرو سٹیشن کے قریب جا کے گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ ملی اور اس پر بھی ڈر تھا کہ واپسی پر یہ ٹریفک پولیس کے لفٹر کو پیاری نہ ہوچکی ہو۔ میں نے دیکھا کہ وحد ت روڈ سے ملتان روڈ تک ہر طرف حافظ صاحب کے پوسٹر ز اور ہورڈنگز تھے اور یہ ٹرینڈ میں نے ’ظالمو قاضی آ رہا ہے‘ والی مہم کے بعد پہلی مرتبہ دیکھا۔ منصورہ گیٹ سے اندر داخل ہوا تو اندازہ ہوا کہ بغیر کسی مدد کے پنڈال میں پہنچنا ممکن ہی نہیں۔ پہلی غیبی مدد فاروق بھٹی صاحب کی ملی جو مجھے سٹیج کے پیچھے گیٹ تک لے گئے اور دوسری مددگیٹ کے اندر سے طلب کی گئی۔ تیسری مدد بہت ہی پیارے قیصر شریف نے کی اور مجھے سٹیج پر ہی فاروق چوہان کے ساتھ ایک سائیڈ پر ٹکا دیا کیونکہ صوفے اور کرسیاں تو ایک طرف رہے سامنے بچھا قالین تک کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اس پوری ایکسرسائز میں اندھیرا گہرا ہو چکا تھا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ جماعت اسلامی لاہور حافظ نعیم الرحمان کے لئے ’ماحول‘ بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ میری ایک سائیڈ پر جامعہ منصورہ اور مولانا مودودی کے اقوال تھے اور دوسری طرف منصورہ کا مرکزی سیکرٹریٹ، جہاں میں رپورٹنگ کے دوران بہت آتا رہا۔ میں اس عمارت کو دیکھتا ہوں توقاضی حسین احمد اور سید منور حسن سے انور نیازی تک بہت سارے مہربان چہرے یاد آتے ہیں جو اپنے رب کی بارگاہ میں پیش ہوچکے۔

میرے سامنے سراج الحق بھی بیٹھے ہوئے تھے اور لیاقت بلوچ بھی۔ امیر العظیم اس وقت سٹیج پر موجود تھے۔ وہاں ایسے ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں تھے جنہوں نے اسلامی انقلاب کے نعرے پر پوری زندگی جماعت کے نام کر دی۔ میں نے نومنتخب امیر کی تقریر کا بعد میں ذکر کرنا ہے مگر اس سفید داڑھی والے بزرگ کارکن کا پہلے جو میرے قریب سٹیج کے پاس کھڑے تھے اور حافظ نعیم الرحمان کی تقریر سن کے ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ اس تقریر میں رونے والی بات کیا ہے مگر یہ بات طے شدہ ہے میں ان کے جذبات نہیں سمجھ سکتا تھا۔ کارکن نعرے لگا رہے تھے ’تیز ہو تیز ہو، جدوجہد تیز ہو‘۔ حافظ نعیم الرحمان خود اپنی تقریر کے اختتام پر اپنی ذمے داریوں کے ذکر پر آبدیدہ ہو گئے۔ جب محترم سراج الحق کو اس ذمے داری کی خبرمکہ مکرمہ میں ملی تھی تو وہ وہاں دھاڑیں مار مار کے رونے لگ پڑے تھے۔ مجھے منصورہ کی مین گراونڈ میں بنے سٹیج پر ایک سائیڈ پر ٹکے ہوئے اچھا لگ رہا تھا کہ میں ایک جمہوری جماعت میں قیادت کی تبدیلی کا عمل دیکھ رہا ہوں۔ مجھے یہ گواہی دینے میں کوئی عار نہیں کہ جماعت اسلامی کے سوا جمہوریت مانگنے والی تمام جماعتوں میں جمہوریت موجود نہیں ہے۔ مجھے ایک باخبر صحافی نے بتایا، جن کی اپنی فیملی کے جماعت اسلامی کے امرا کے انتخاب میں سو سے زائد ووٹ ہیں کہ حافظ نعیم الرحمان اسی فیصد سے زیادہ ووٹوں سے منتخب ہو کے آئے ہیں۔ جماعت اسلامی نومنتخب امیر کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد آن د ی ریکارڈ نہیں لاتی۔

میں نور الہدیٰ کو بتا رہا تھا کہ جماعت اسلامی کو ایک نئی سوچ والا ٹیلنٹڈ امیر ملا ہے۔ حافظ نعیم الرحمان نیک اور ایماندار ہوں گے مگر یہ کوئی نئی بات نہیں۔ قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور سراج الحق کی امانت اور دیانت کی گواہی تو مجھ جیسا عام صحافی بھی دے سکتا ہے تاہم جماعت کو پہلی مرتبہ ٹی شرٹ اور پینٹ کوٹ پہننے والا امیر آیا ہے۔ مجھے جماعت اسلامی میں کچھ کچھ ترکی کی اسلامی تحریک والی لُک نظر آنے لگی ہے یعنی اربکان، اردگان والی۔ دوسرے عمران خان نے ہماری سیاست میں جارحیت اور ڈرامے کو کچھ زیادہ ہی شامل کر دیا ہے اور لگتا ہے کہ بہت ہی شریف النفس اور ملنسار سراج الحق کے مقابلے میں حافظ نعیم الرحمان سیاست کی ان ضروریات کو پورا کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں خاص طور پر جب میں ان کی کراچی میں پرفارمنس دیکھتا ہوں مگر سوال یہ ہے کہ کیا لاہور کا کارکن ان کا اس طرح ساتھ دے سکے گا جس طرح کراچی والوں نے اپنے شہر دار کا دیا اور کے الیکٹرک کے خلاف کئی کئی روز تک دھرنا دے کر بیٹھے رہے۔ ابھی تو نومنتخب امیر جماعت اسلامی نے اپنی پہلی حاضری امریکی قونصلیٹ کے سامنے لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ برادرم امیر العظیم  نے کل سٹیج سے ہی اس کی کال دے دی ہے۔ ویسے آپ نو منتخب امیر کی سیاسی ترجیحات کا پوچھیں تو وہ میں پہلے ہی بتا چکا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کم از کم تین مرتبہ فارم سینتالیس والوں کی حکومت کو للکارا جس سے پتا چل گیا کہ وہ پی ٹی آئی ہی کی زبان بولیں گے (جس کا انہیں مکمل حق حاصل ہے)۔ خیال آ رہا تھا کہ جماعت نے کئی عشروں سے پنجاب کو قیادت کے لائق نہیں سمجھا۔ ایک خیال اور آیا کہ کراچی کے اس امیر کو لاہور کے منصورہ میں بیٹھی ہوئی جماعت کی اپنی اسٹیبلشمنٹ سے مزاحمت مل سکتی ہے جو مبینہ طور پر ’پرو نون‘ اور ’پرو اسٹیبلشمنٹ‘ ہے سو ان کی سیاسی سمت کا اسی وقت پتا چل جائے گا جب وہ اپنے جنرل سیکرٹری کے نام کا اعلان کریں گے۔

میں نے پوری تقریر سنی، مجھے لگا جماعت کے حافظ نے قوم کے حافظ کو اچھا پیغام نہیں دیا جو کہ جماعت اسلامی کا حقیقی اور بنیادی مزاج نہیں ہے۔ جماعت اسلامی قوم کی نظریاتی سرحدوں کی محافظ اور جغرافیائی سرحدوں کے محافظوں کی دوست رہی ہے۔ مجھے یاد آیا کہ سید منور حسن بھی اپنے ایک متنازع بیان کے بعد جماعت کی امارت کا الیکشن ہار گئے تھے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا جماعت کے حافظ صاحب قوم کے حافظ صاحب کے ساتھ عمران خان کی محبت میں پنگا لے کر کامیاب ہوتے ہیں یا ناکام۔ انہوں نے فوج کا نام لے کر جتنی بھی باتیں کیں وہ سوشل میڈیا کی باتیں کہی جا سکتی ہیں۔ جماعت اسلامی نے جب سے ’پف‘ بنایا تب سے سوچ رہی ہے کہ وہ اینٹی نواز ووٹ کی بنیاد پر کامیاب ہوسکتی ہے۔ تیس برس سے تو ایسا نہیں ہوا، ہو سکتا ہے کہ اب ایسا ہوجائے، واللہ اعلم باالصواب!!!

The post حافظ کی جماعت appeared first on Naibaat.