Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جماعت اسلامی کی ایک خوبصورت نشست

جماعت اسلامی کی ایک خوبصورت نشست جماعت اسلامی کے کچھ راہنماؤں کے ساتھ میری محبت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کردار کے اعتبار سے یہ مجھ سے بہت ...

جماعت اسلامی کی ایک خوبصورت نشست

جماعت اسلامی کے کچھ راہنماؤں کے ساتھ میری محبت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کردار کے اعتبار سے یہ مجھ سے بہت بہتر لوگ ہیں، جائز طریقوں سے ممکن ہے کچھ مالی فوائد اپنی سیاست سے انہوں نے اٹھائے ہوں مگر ان کے کسی راہنما کے بارے میں شواہد کے ساتھ کبھی یہ دیکھا نہ سنا کوئی بڑی کرپشن انہوں نے انفرادی طور پر یا کسی حکومت کا حصہ بن کر کی ہو، ان کے اکثر راہنماؤں کے گھروں میں ہونے والی پْروقار نشستوں میں حاضری کا اتفاق بھی مجھے ہوتا ہے، ان کا شاید ہی کوئی راہنما ایسا ہوگا جس کا گھر یا بنگلہ کنالوں یا ایکڑز پر محیط ہو، ان میں کوئی پانچ مرلے کے گھر میں رہتا ہے کوئی دس مرلے کے یا زیادہ سے زیادہ ایک کنال کے، لیاقت بلوچ کئی برس وحدت کالونی کے چھوٹے سے ایک گھر میں رہے، اب بھی مسلم ٹاؤن میں جس گھر میں وہ رہتے ہیں شاید دس پندرہ مرلے کا ہی ہوگا، وہ مجھ سے بہت محبت فرماتے ہیں، وہ انتہائی نرم لب و لہجے میں بات کرتے ہیں جو براہ راست دل پر اثر کرتی ہے، کچھ ایسے ہی انداز فرید پراچہ صاحب کے ہیں ،کبھی کبھی میرے کسی کالم کسی تحریر پر اْن کی شاباش آتی ہے مجھے خوشی ہوتی ہے یہ اعزاز ایسے لوگوں کی طرف سے مجھے مل رہا ہے جن کی عزت ہے، اسی طرح ہمارے امیر العظیم ہیں، اسی طرح ہمارے حافظ سلمان بٹ تھے ،حافظ سلمان بٹ کالب ولہجہ بہت گرج دار ہوتا تھا، ان کا یہ انداز شاید ان کے ’’بٹ‘‘ ہونے کی وجہ سے تھا جماعت اسلامی کی وجہ سے نہیں تھا ،یہ سب لوگ جماعت اسلامی کا اثاثہ ہیں، جہاں ان کی اور بہت سی خصوصیات ہیں، یہ خصوصیت بھی کم نہیں وہ ہمیشہ ایک ہی جماعت میں رہے، جماعت اسلامی کے بارے میں مشہور ہے’’جماعت اسلامی سے کوئی نکل بھی جائے جماعت اسلامی اس میں سے نہیں نکلتی‘‘، یہ شاید جماعت اسلامی ہی کی تربیت کا اثر ہے پی ٹی آئی کے چودھری اعجاز احمد اور میاں محمود الرشید بے پناہ اذیتیں سہنے کے باوجود ڈٹے ہوئے ہیں، حال ہی میں جماعت اسلامی کے ایک مضبوط نظام کے مطابق اپنی ٹرم پوری کر کے رخصت ہونے والے سراج الحق کی دیانت و صداقت پر بھی کسی کو کبھی کوئی شک نہیں رہا، ان کا طرز زندگی بھی انتہائی سادہ ہے، ان کی سیاست کا ایک خاص انداز ہے، ان کی امیری کے دوران ہمارے سیاسی و اصلی حکمرانوں کی جانب سے عوام کے ساتھ جو ظلم ہوئے وہ اس کے خلاف ایک توانا آواز نہیں بن سکے ،اپنے ایک خاص مزاج کے مطابق انتہائی نرم لب و لہجے میں جو احتجاج وہ کرتے تھے کسی پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا، مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے اپنے حصے کی شمع انہوں نے جلانے کی کوشش نہیں کی، خفیہ قوتوں سے پوچھ کر یا ان کے کہنے پر کسی معاملے میں شدید احتجاج کی منافقت سے ہزار درجے بہتر ہے خفیہ قوتوں کی مرضی یا مفاد کی پروا کئے بغیر ہلکا پھلکا احتجاج ہی ریکارڈ کروا دیا جائے، اب ہمارے مولانا فضل الرحمان کسی معاملے میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جتنا چاہیں احتجاج کر لیں، ماضی میں جو رویہ اور کردار ان کا رہا ہے عوام کو یقین ہی نہیں آتا وہ یہ احتجاج کسی سے پوچھ کے نہیں کر رہے، لوگ سمجھتے ہیں ان کے کچھ مفادات ہیں جن کی عدم تکمیل پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اچانک احتجاج کی انہیں ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے اور مفادات کی تکمیل ہونے پر یہ ضرورت فوری طور پر ختم ہو جاتی ہے، مولانا مستقل مزاج نہیں، ان کے اس عمل نے اْن کی شخصیت کو ایسا نقصان پہنچایا ہے جس کا آگے چل کر انہیں کوئی فائدہ کم از کم عزت آبرو کے حوالے سے شاید نہیں ہوگا، جماعت اسلامی کا ماضی میں ایسا کوئی کردار رہا بھی ہے اب نہیں ہے، اسٹیبلشمنٹ کے لئے تو جماعت اسلامی کا یہ کردار بھی یقینا بہت تکلیف دہ ہوگا ان میں جمہوریت ہے جس کے مطابق جماعت پر کسی ایک شخص یا خاندان کی اجارہ داری نہیں ہے جسے کان سے پکڑ کر اپنی ہر بات منوا لی جائے، یہ جماعت بھی اگر مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئی ہوتی پھر اقتدار پی ٹی آئی، نون لیگ یا پیپلز پارٹی کی طرح اسے بھی شاید مل جاتا وہ عزت ہر گز نہ ملتی جو آج اسے ملی ہوئی ہے، اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر سوار ہو کے اقتدار میں آ کر مسلسل بے عزت ہونے سے بہتر ہے اقتدار کے بغیر عزت سے وقت گزار لیا جائے ،گزشتہ دنوں جماعت اسلامی کے نئے امیر کا انتخاب ہوا ،حافظ نعیم الرحمان نئے امیر منتخب ہوئے ہیں، جماعت اسلامی کے سیکریٹری نشر و اشاعت قیصر شریف بہت محبت مروت والے انسان ہیں، ہم ان کے ممنون ہیں انہوں نے ایک ایسی شخصیت کے ساتھ ہماری نشست کا اہتمام کیا جن سے ملنے کے ہم خود اس لئے خواشمند تھے کہ ان کی اہلیت اور قابلیت بارے بہت کچھ ہم نے سن رکھا تھا، ان کی جانب سے منصورہ میں ایک پرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا گیا، چند سینئر کالم نگار و تجزیہ کار موجود تھے، پہلے تو حافظ نعیم الرحمان نے مختصر گفتگو کی اس کے بعد مہمان صحافیوں نے تفصیلی گفتگو اپنے سوالات کی صورت میں کی، ایک دو تجزیہ نگاروں کی ’’تفصیلی گفتگو‘‘ کے بعد خود امیر جماعت کو ان سے سوال پوچھنے پڑ گئے، ہمارے ہاں بولنے اور بکنے میں فرق اب بہت کم رہ گیا ہے، اس نشست کی ایک خوبی یہ بھی تھی سب نے بہت مہذب لب و لہجے میں بات کی، کچھ تلخ سوالات کے جواب بھی امیر جماعت نے بہت تحمل سے دئیے، ان کے جوابات یا ان کی گفتگو میں کوئی ملاوٹ یا بناوٹ نہیں تھی جو عموماً ہمارے سیاستدانوں کی باتوں میں ہوتی ہے، ان کا مؤقف بہت دلیرانہ اور واضع تھا کہ موجودہ وفاقی و صوبائی حکومتیں ملاوٹی ہیں، یہ فارم 47 کی بنیاد پر بنی ہیں ،ان کے قائم رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے، یہ حکومتیں ادھار کی طاقت پر جتنی دیر مسلط رہیں گی ملک کا نقصان ہوگا، ان کا کہنا تھا اس ملک میں جو تماشا ایک ادارے کی کچھ نامعقول شخصیات نے لگا رکھا ہے اس کا جلد از جلد خاتمہ ہونا چاہئے، لوگ بڑی تیزی سے ناامیدی اور مایوسی کی جانب بڑھ رہے ہیں ،یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے، امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کے ایک ایک لفظ ایک ایک جملے میں وطن کی محبت واضع محسوس ہو رہی تھی، صرف لفظوں اور جملوں سے نہیں ان کی باڈی لینگوئج سے بھی یہی ظاہر ہو رہا تھا ملکی نظام کی مکمل تباہی نے انہیں پریشان کر رکھا ہے، دوسری طرف اس ملک کی قسمت کے دو نمبر ٹھیکیداروں کو احساس ہی نہیں ہے کیا کیا گھناؤنے کھیل وہ کھیلتے جا رہے ہیں ،یہ ملک اس وقت تک سدھرنے کے پہلے زینے پر نہیں چڑہے گا جب تک سنجیدہ، باوقار، ہر طرح کے ذاتی مفادات سے بالاتر وطن سے مخلص لوگ اس کی باگ ڈور نہیں سنبھالیں گے، المیہ یہ ہے اس ملک کی قسمت کے دو نمبر ٹھیکیداروں نے ایسا ماحول اور نظام بنا دیا ہے جس میں صرف بددیانت، گھٹیا، لالچی اور رج کے کمینے لوگ ہی آگے آ سکتے ہیں۔

The post جماعت اسلامی کی ایک خوبصورت نشست appeared first on Naibaat.