Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

اچھا حکمران اور اچھا الیکٹریشن ملنا محال ہے

اچھا حکمران اور اچھا الیکٹریشن ملنا محال ہے حکمران جماعت ن لیگ کی یہ روایت ہے کہ یہ کوئی بات بھولتے نہیں خصوصاً اپنے مخالفین کے بارے میں یہ...

اچھا حکمران اور اچھا الیکٹریشن ملنا محال ہے

حکمران جماعت ن لیگ کی یہ روایت ہے کہ یہ کوئی بات بھولتے نہیں خصوصاً اپنے مخالفین کے بارے میں یہ باتیں یاد رکھتے ہیں حالانکہ کچھ تلخیاں ایسی ہوتی ہیں جنہیں فراموش کیے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہو جاتا ہے یہ ان کو بھی نہیں بھولتے۔

حالیہ انتخابات سے پہلے جب شہباز شریف اپنے لندن میں مقیم بڑے بھائی نواز شریف اور پاکستانی اداروں کے درمیان ایک شٹل ڈپلومیسی کے تحت سلسلہ وار لندن اور اسلام آباد کے لیے اڑانیں بھرا کرتے تھے تو ایک رات وہ لندن سے آئے ہی تھے کہ انہیں اگلے ہی روز پھر لندن جانا پڑ گیا جس سے میڈیا اور سیاست دونوں میں کھلبلی مچ گئی اس کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ نواز شریف نے لندن سے اپنی میڈیا سے گفتگو میں جنرل قمر جاوید باجوہ ، جنرل فیض حمید اور جسٹس ثاقب نثار کے نام لے لے کر ان کے خلاف احتساب کی کارروائی کا اعلان کیا تھا۔ جس پر شہباز شریف کو آگاہ کیا گیا کہ اس سے معاملات واپس پلٹ کر دوبارہ ’’بوہڑ تھلے‘‘ آجائیں گے لہٰذا اس سے اجتناب کیا جائے جس پر شہباز شریف اگلی ہی فلائٹ سے واپس لندن چلے گئے تاکہ دامن کے چاک کی رفو گری کی جا سکے مگر چھید اتنے بڑے تھے کہ ان کی مرمت آسان نہیں۔

خبر ہے کہ پنجاب کے اینٹی کرپشن محکمہ نے سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کے بھائی نجف حمید کو چکوال سے کرپشن کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے بطور ریونیو آفیسر ان پر پراپرٹی کے لین دین میں کروڑوں روپے کی بے ضابطگیوں کے الزامات ہیں۔ ملزم کے ریمانڈ کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران جماعت پھر اُس راستے پر چلنے کا تہیہ کر چکی ہے جس پر چل کر انہوں نے پہلے بھی بڑے دکھ اٹھائے ہیں۔ اگر ن لیگ انتقام کے بجائے طرز حکمرانی پہ توجہ دے تو یہ ان کے لیے زیادہ بہتر راستہ ہے۔ اس طرح کے طرز عمل سے سیاسی اور ریاستی اداروں کے درمیان اعتماد متاثر ہونے کا خدشہ ہے اور یہ سلسلہ چل پڑا تو پھر کسی کے لیے بھی اس میں خیر نہیں ہو گی۔ مریم نواز کی باڈی لینگوئج ان کا کوٹ لکھپت جیل کا دورہ اور اپنی تقریر میں ایام اسیری کی یادوں کے تذکرے اس بات کے غماض ہیں کہ وہ ماضی کو بھولنا نہیں چاہتی اور نہ ہی دوسروں کو بھولنے دینا چاہتے ہیں۔ انہیں صدر آصف زرداری سے سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح باد مخالف کے باوجود اپنے اقتدار کی مدت مکمل کی جاتی ہے۔ اچھی حکمرانی کرنا اچھا الیکٹریشن بننے کی طرح ہوتا ہے ایک عقلمند اور ذہن الیکٹریشن وہ نہیں ہوتا جو فیوز باکس کے شارٹ سرکٹ فیوز کو بحال کرنا جانتا ہو بلکہ اچھا الیکٹریشن وہ ہے جو منفی اور مثبت تاروں کو آپس میں اس طرح نہ ٹکرانے دے جس سے برقی جھٹکے جنم لیں جو فیوز باکس کو ناکارہ کر دیں اور ہر طرف اندھیرا چھا جائے کیونکہ روشنی ناگزیر ہے یہ جاری رہنی چاہیے۔

اسی دوران ایک اور پیش رفت سامنے آئی ہے میاں نواز شریف جو 8 فروری کے انتخابات کے نتائج کے بعد سیاسی منظر سے غائب ہو گئے تھے اور جن کے بارے میں سوچا جا رہا تھا کہ وہ وزیراعظم سے کم کسی حکومتی کرسی پر بیٹھنا گوارہ نہیں کریں گے وہ خلاف معمول اور خلاف توقع وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کے وزراء کی مجلس میں مشاورت کی کرسی پر جلوہ افروز نظر آئے ہیں جہاں وزیراعلیٰ مریم نواز کے ساتھ بیٹھ کر انہوں نے صوبائی وزراء اور بیورو کریسی کو ہدایات دینا شروع کر دی ہیں ایسی ہی ایک حالیہ نشست کے خبروں کے بعد مخالفین نے پوچھنا شروع کر دیا ہے کہ میاں نواز شریف گو تین بار وزیراعظم رہے ہیں مگر اس وقت صرف لاہور کے ایک حلقے کے ایم این اے ہیں جس کے علاوہ اور کوئی حکومتی عہدہ ان کے پاس نہیں ہے تو پھر وہ کس حیثیت سے پنجاب کابینہ کو ہینڈل کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے مریم نواز سے پوچھا جا چکا ہے کہ راشن بیگ پر نواز شریف کی تصویر کیوں چھا پی گئی ہے تو مریم صاحبہ کا کہنا تھا کہ وہ اس لیے کہ یہ نواز شریف کی حکومت ہے۔ اس طرح کی باتوں سے انہیں فائدہ کوئی نہیں ہونا الٹا اس سے عوامی رائے عامہ جو پہلے ہی ان کی طرف سے دوسری طرف جا چکی ہے۔ اس میں مزید کساد بازاری کا خطرہ ہے۔ نواز شریف سے پہلے پرویز رشید صاحب اسی کرسی پر بیٹھ کر اجلاسوں میں مریم نواز کی راہنمائی فرمایا کرتے تھے وہ تو کسی حد تک عوام کے نوٹس میں نہیں آتا تھا مگر نواز شریف کی بات اور ہے ایک تو یہ کرسی ان کے سیاسی قد کاٹھ کے سائز سے چھوٹی ہے اور پھر بھی وہ بضد ہیں تو اس سے موروثیت والا تاثر اور زور پکڑتا ہے۔ یہ سیاسی اخلاقیات میں بھی کسی طرح فٹ نہیں بیٹھتا لہٰذا بہتر ہو گا کہ میاں صاحب اس خیال کو دل سے نکال دیں۔ اگر وہ اس طرح کی ایڈوائزری وفاقی ڈھانچے کو عطا کر دیں تو پھر بھی کوئی بات ہے۔ یہ ویسے بھی ان کے لیے سیاسی تنزلی کا باعث ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنی ساری مشاورت گھر بیٹھ کر مہیا کریں working from home اس کے لیے زیادہ بہتر ہو گا اس پر کسی کو اعتراض بھی نہیں ہو گا۔

حکمران جماعت نے سینٹ الیکشن میں خرم دستگیر، سعد رفیق، رانا ثنا اللہ اور محسن لطیف جیسے قد آور مگر الیکشن میں ناکام ہونے والے راہنماؤں کو ٹکٹ جاری نہیں کیے۔ یہ ایک لحاظ سے پارٹی کے لیے اچھا اقدام ہے کہ جن شخصیات کو عوام نے مسترد کر دیا ہے انہیں بڑے عہدے نہ دیئے جائیں۔ شروع میں ایک دفعہ خبر گرم تھی کہ رانا ثنا اللہ کو گورنر پنجاب لگایا جا رہا ہے اس وقت ابھی پیپلزپارٹی سے شراکت اقتدار پر اتفاق نہیں ہوا تھا۔ اب تو گورنر پنجاب اور گورنر کے پی کے جیسے دونوں عہدے پیپلزپارٹی کو دیئے جا چکے ہیں تو ایسی صورت میں پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی کے یہ چاروں مہرے فی الحال رہیں گے یا پھر ان کو ضمنی انتخابات میں دوبارہ موقع دیا جائے لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر ان کو دوبارہ آنے دینا ہوتا تو انہیں پہلے ہی منتخب کرایا جا سکتا تھا۔ اصل اسباب زیر پردہ ہیں مگر محسن لطیف کے علاوہ کوئی نہیں بول رہا۔

وزیراعلیٰ مریم نواز نے پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار صوبے میں ایئر ایمولینس سروس شروع کرنے کا علان کیا ہے۔ ہماری سیاسی حکومتیں بہت سے کام اس لیے کرتی ہیں کہ ان کے ساتھ ’’تاریخ میں پہلی بار“ کا سابقہ استعمال کیا جا سکے جس کے مقاصد عوامی سے زیادہ سیاسی ہوتے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ایئر ایمبولینس سروس کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں پہاڑی علاقہ ہو اور بائی روڈ ریسکیو کرنا بہت دشوار ہے۔ پنجاب36 اضلاع میں کتنے ایسے ہیں جو پہاڑوں میں گھرے ہوئے ہوں۔

The post اچھا حکمران اور اچھا الیکٹریشن ملنا محال ہے appeared first on Naibaat.