Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

سندھ پر ڈاکو راج !

سندھ پر ڈاکو راج ! سندھ حکومت سٹریٹ کرائمز پر قابو پانے میں جس بری طرح ناکام ہوئی ہے کراچی میں کوئی دن ایسا نہیں جب کوئی ڈاکو کسی شہری کو ہ...

سندھ پر ڈاکو راج !

سندھ حکومت سٹریٹ کرائمز پر قابو پانے میں جس بری طرح ناکام ہوئی ہے کراچی میں کوئی دن ایسا نہیں جب کوئی ڈاکو کسی شہری کو ہلاک کردے یاشہری کسی ڈاکو کو ہلاک نہ کردیتے ہوں۔ سندھ حکومت کی اس سے بڑی ناکامی کیا ہوگی کہ گزشتہ پونے دوسال میں میرے چار فون سٹریٹ کرائمز کی نذر ہوگئے پانچواں خریدنے کا یارانہیں ہے۔ اس لئے 27سو روپے والے بٹنوں والے فون سے کام چلا رہا ہوں جس سے صرف سن اور سنایا جاسکتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اپنا کالم لاہور بھیجنے کیلئے محلے کے کسی نوجوان کا احسان اٹھاتا ہوں۔ بہت اچھے نوجوان ہیں میرے ہاتھ میں کاغذات دیکھ کر فوراً فون نکال لیتے ہیں۔ اچھا انکل، یہ لاہور بھیجنا ہے گزشتہ کالم ’’پاکستان جمہوریت کا آنا جانا‘‘ میں کچھ پرانے کالموں کے پیرے شامل ہوگئے کچھ کالم کے پیرے نکل گئے ۔ پڑھنے والوں کو یقیناً کوفت ہوئی نشاندھی کرنے والے کرم فرماؤں کا بے حد شکریہ۔

آئندہ کوشش کروں گا کالم کسی نوجوان کے حوالے کرنے کی بجائے اپنی موجودگی میں واٹس اپ کے ذریعہ بھجوایا جائے۔ اب اندازہ لگائیں چار فون جانے سے میں کس قدر پریشانی کا شکار ہوں جن کی پوری تنخواہ جن کی بینکوں سے نکلوائی گئی رقم اور جن کی زندگی چھین لی جاتی ہے انپر اور ان کے لواحقین پر کیا گزرتی ہوگی سندھ کے وزیرداخلہ نے فرمایا بڑے شہروں میں کرائمز ہوتے ہیں کسے انکار ہے حکومتیں کنٹرول کرنے کے مؤثر اقدامات بھی توکرتی ہیں۔ آپ کی حکومت پندرہ سال میں آئی جی پولیس کو ہدایت دینے کا معرکہ سرکرسکی ہے اپنی اس ہدایت پر عملدرآمد کا جائزہ لیا جاتا اس کی فرصت کہاں ہے۔ سندھ کابینہ میں بہت اہم وزیر ناصرشاہ نے سندھ میں ہرصورت امن وامان بحال کرنے کو اولین ترجیح قرار دیا ہے شاید سندھ حکومت ترجیح کا مطلب ”نظر انداز“ سمجھتی ہے۔

سندھ حکومت نے پندرہ سال میں جو کام پوری دلجمئی سے پایہ تکمیل کو پہنچایا ہے وہ سندھ بھر میں سکولوں، کالجوں، انسٹی ٹیوئز،یونیورسٹیوں اور ہسپتالوں کو بھٹو اور زرداری فیملیز سے منسوب کرنا ہے۔ مثلاً شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ، شہید بے نظیر بھٹو یونیورٹی ، آصفہ ڈگری کالج، بختاور ماڈل سکول، البتہ ایک کمی ہے تاحال کسی ادارے پر بلاول کانام نظر نہیں آیا، نوابشاہ شہر کا نام بھی بے نظیر آباد رکھ دیا گیا ہے اسی طرح کراچی کا ایئرپورٹ اگر جناح سے منسوب نہ ہوتا تو اسلام آباد ایئرپورٹ کی طرح اس کا نام بھی بھٹو ایئرپورٹ یا بینظیر ایئر پورٹ رکھ دیا جاتا جبکہ لاہور کا ایئر پورٹ علامہ اقبال سے منسوب ہونے کی وجہ سے اس ”سعادت“ سے محروم رہ گیا۔ کراچی کی دوبڑی شاہراہیں ایم اے جناح روڈ بانی پاکستان اور شاہراہ فیصل سعودی فرمانروا شاہ فیصل کے نام سے منسوب ہیں ورنہ یہ دونوں شاہراہیں بھی بھٹو یازرداری فیملی سے منسوب ہونے کا اعزاز افتخار حاصل کرچکی ہوتیں۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ جن اداروں کو بھٹو اور زرداری فیملی سے منسوب کیا گیاہے ان دونوں فیملیوں کا ان پر خرچ کتنا آیا ہے تو جواب ہے ”حلوائی کی دکان پر نانا جی فاتحہ“ والا معاملہ ہے اور جب ایسی مفت کی ’’فاتحہ‘‘ کا اختیارہوتو یہ واحد معاملہ ہے جس پر سندھی عوام مخالفت کی ”جرأت رندانہ“ کرسکتے ہیں ورنہ اب تک سندھ کا نام بھی ذوالفقار ستان یا بینظیرستان رکھا جاچکا ہوتا۔

پیپلزپارٹی کی پندرہ سالہ حکومت میں کراچی کی شناخت میں چیزیں بن چکی ہے گلیوں میں کچرے کے ڈھیر، سیوریج کے آلودہ پانی میں ڈوبی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور حتی کہ ڈیفنس اور کلفٹن کالونی جیسے پوش علاقوں سمیت ہرجگہ اور سڑک پر آوارہ کتوں کے غول ، یہ تصدیق شدھ نہیں ہے محض سنی سنائی ہے کہ سندھ میں کتوں کو تلف کرنے کے سلسلے میں بختاور زرداری کا بے زبانوں کے لیے جذبہ ترحم رکاوٹ ہے۔ یہ سب بے بنیاد پروپیگنڈہ کے حکومتی دعوؤں کے باوجود بختاور کے نانا کے شہرلاڑکانہ میں آٹھ دس دن کے بعد کسی انسان کو کتے کے کاٹنے کی خبر کے ساتھ علاج کے لیے ویکسین نہ ہونے کی ’’خوشخبری‘‘ بھی سنادی جاتی ہے بلکہ ’’زبان دراز ‘‘ جاندار ہے اس جذبہ ترحم کے دائرہ میں آنے کا مستحق بھی نہیں ہے۔

سٹیل ٹاؤن موڑ پر واقع اخبار کے سٹال پر ایک سندھی بزرگ اشتعال سے آسودہ گفتگو فرمارہے تھے سندھی زبان میں گولہ باری پوری طرح سمجھ تونہ آئی البتہ پیپلزپارٹی، زرداری کے نام سے اندازہ ہوا کہ اس لفظی گولہ باری کا نشانہ کون ہے۔ البتہ اس گفتگو کے دوران ان کے منہ سے ایک جملہ نکل گیا’’ہم کوئی غلام ہیں‘‘ یہ پوری طرح سمجھ میں آگیا کہ بزرگی کے باوجود لہجے میں ’’یوتھ‘‘ کی گھن گرج کیوں ہے ویسے دخل در معقولات کردیا، لیکن سندھ کے عوام ووٹ تو پیپلزپارتی اور زرداری کو دیتے ہیں ’’بزرگ نے بہت مختصر مگر معنی خیز جواب دیا ’’ ووٹ دیتے کب ہیں لے لیے جاتے ہیں‘‘ اس جملہ میں چھپی معنویت کوباآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے وقت گزرنے کے ساتھ نسیان کی نعمت کے طفیل ہر صدمے کا زخم بھر جاتا ہے لیکن جب ہرروز موبائل چھینے جانے کی خبر چار موبائل فونز سے محرومی کے زخم کو گھرنچی ہوتو یہ بھلا یہ زخم وقت گزرنے پر بھی کیسے بھر سکتا ہے۔

ایک نہایت خوش آئندبات یہ ہے کہ کراچی کے نوجوان ہونہار ڈاکو خوش اخلاق بہت ہیں جن کی گفتگو میں شائستگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے لوگ بھاگ ’’مزاحمت کی بدتمیزی‘‘ کرکے ان کی خوش اخلاقی کو شائستگی کو مجروح کرتے ہیں اور پھر اس ’’بدتمیزی‘‘ کو بھگتتے ہیں ایک ذاتی تجربہ ’’انکل، آپ کے پاس موبائل تو ہوگا برائے مہربانی اسے ہمارے حوالے کردیجئے ، یہ آپ کے تبرک کے طور پر ہمارے پاس رہے گا۔ آپ کے احترام ہم یہ (پستول ) استعمال نہیں کرنا چاہتے موبائل حوالے کرتے ہوئے بڑے نرم انداز سے عرض کیا بیٹا یہ تبرک تمہارے ہیں تو نہیں رہے گا یہ بائیس ہزار کا ہے مگر دو تین ہزار میں کسی دکاندار کو منتقل ہو جائے گا تودوہزار میں مجھے ہی واپس کردو‘‘ ایک نے کہا انکل اگر آپ کے پاس دوہزار ہیں تو وہ بھی اس ’’تبرک‘‘ میں شامل کردیجئے ۔ جلدی سے جیب میں موجود ساتھ روپے دکھاتے ہوئے عرض کیا بیٹا تلاشی لے لو میرے پاس تو صرف یہی ہیں۔ جواب ملا تو پھر سیدھا سیدھا گھر کی راہ لیں اور ہمارا وقت ضائع نہ کریں ۔ چنانچہ ہم نے سیدھی گھرکی اور نوجوان ہونہار ڈاکوؤں نے بائک کو کک لگاکر اپنی راہ لی جو اس دوران سٹارٹ ہی رہی۔

ایک بڑے پولیس آفیسر نے فرمایا ، پنجاب میں سٹریٹ کرائمز کی شرح سندھ سے زیادہ ہے، تسلیم، مگر یہ سندھ میں سٹریٹ کرائمز جاری رہنے کا جواز کیسے بن گیا۔ پنجاب میں بھی کئی موبائل فونز سے محرومی کا صدمہ اٹھانا پڑا مگر کسی ڈاکو کے ہاتھوں نہیں بلکہ جیب فروشوں کی ماہرانہ مہربانی کے طفیل سندھ کے وزیر شرجیل میمن کے بقول ’’سندھ حکومت کو بدامنی نگران حکومت سے ورثہ میں ملی ہے، یہ کیسی ستم ظریفی ہے نگران حکومت کے دور میں ایک جبکہ بدامنی سے پاک سندھ حکومت کے دور میں یہ ناچیز مین موبائل فونزسے محروم ہوا ہے۔ میرے نزدیک بدامنی سے بھرپورنگرانی حکومت کا دور ہو اسی سے پاک سندھ حکومت کے دور سے بہتر تھا سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے کراچی سمیت پورے سندھ میں بدامنی اور سٹریٹ کرائمز کی تشویش ناک صورتحال پر جسٹس کمیٹی کا اجلاس طلب کرنا پڑ گیا ہے چیف جسٹس نے کچے کے علاقے میں اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں اضافے پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

سینئر صحافی اور روزنامہ نئی بات کراچی کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر جناب مقصود یوسفی نے اپنے تجزیہ میں دو بہت اہم سوال اٹھائے ہیں کہ کراچی میں سیف سٹی کا منصوبہ جس کیلئے کئی سال سے بھاری رقوم مختص کی جارہی ہیں خرچ بھی ہوتی ہوں گی مگر یہ پائے تکمیل کو نہیں پہنچ رہا نہیں معلوم اس منصوبے کون رکاوٹ ہے۔ جناب محترم اس منصوبے میں ’’کرپشن ‘‘ رکاوٹ ہے، دوسرا سوال شہروں میں سٹریٹ کرائمز اور کچے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کیوں کامیاب نہیں ہو رہے عرض ہے، جیسا کہ عام بات ہے بعض وڈیرے ان کے پشت پناہ ہیں اور پولیس میں ڈاکوؤں نے اپنے مخبربھرتی کیے ہوئے ہیں۔ جن سے انہیں آپریشن کی پیشگی اطلاع مل جاتی ہے۔ غور کیا جائے کراچی میں نامکمل سیف سٹی کے کیمرے جب کوئی بڑی واردات اکثر بند ہو جایا کرتے ہیں۔ لاہور میں سیف سٹی کا منصوبہ کئی سال پہلے مکمل ہوگیا اس کے کیمرے بھی کبھی خراب نہیں ہوتے اس سے جرائم میں قابو پانے میں مدد بھی مل رہی ہے ۔

The post سندھ پر ڈاکو راج ! appeared first on Naibaat.