Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

کسان کے ساتھ کھیل کب تک؟

کسان کے ساتھ کھیل کب تک؟ زرعی شعبے کو کسی بھی ملک، قوم اور معاشرے بلکہ پوری نسلِ انسانی اور ہر طرح کی حیات کے لیے سب سے اہم شعبہ قرار دیا ج...

کسان کے ساتھ کھیل کب تک؟

زرعی شعبے کو کسی بھی ملک، قوم اور معاشرے بلکہ پوری نسلِ انسانی اور ہر طرح کی حیات کے لیے سب سے اہم شعبہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا، زراعت ایک ایسا کاروبار ہے جو عالمی معیشت میں مختلف نوعیت کی اشیا فراہم کر کے انسانی معاشرے کی ترقی، ترویج اور بقا میں سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تجارت میں استعمال ہونے والی چیزیں ، مختلف نوعیت کا اناج، ہر طرح کے مویشی یعنی لائیو سٹاک، ڈیری، فائبر، اور ایندھن کے لیے خام مال اسی کا مرہون منت ہے۔ یہ شعبہ ہمیں پھل اور سبزیاں فراہم کرتا ہے جو انسانی صحت برقرار رکھنے کے لیے بے حد ضروری ہیں، یہی شعبہ جانوروں کے لیے خوراک مہیا کرتا ہے جن کا گوشت اور دودھ انسان غذا کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ زرعی شعبے سے ہمیں کپاس ملتی ہے جو لباس اور ستر پوشی کے ساتھ ساتھ ہمیں موسمی شدتوں سے بچاتی ہے، یہاں سے ربڑ حاصل ہوتا ہے جو مختلف مصنوعات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ زراعت ہمیں صنعتی خام مال فراہم کرتی ہے جیسے بائیو پلاسٹک، پلانٹ آئل، بائیو لبریکینٹس کئی طرح کے رنگ ، ڈیٹرجنٹس اور کھادیں،ایسے ہی زرعی شعبہ ادویات سازی میں مددگار ثابت ہوتا ہے اور کئی طرح کی اجناس، درخت اور جڑی بوٹیاں ادویات تیار کرنے میں استعمال ہوتی ہیں،اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زراعت کا شعبہ انسانی ترقی اور بقا کے لیے کتنی اہمیت و افادیت کا حامل ہے۔

زرعی شعبہ نہ ہو تو انسان کیا کسی بھی ذی روح کا زندہ رہنا ممکن نہ رہے، جون 2022ء میں سامنے آنے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں روزانہ 25 ہزار افراد بھوک اور اس سے متعلقہ وجوہ کی بنا پر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، ان میں سب سے زیادہ تعداد بچوں کی ہے جو دس ہزار بنتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں تقریباً 854 ملین افراد غذائیت کی کمی کا شکار ہیں جبکہ اشیائے خورونوش کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے یہ تعداد جلد ہی 100 ملین تک پہنچ جانے کا اندیشہ ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے ممالک اس شعبے کی ترقی پر خصوصی توجہ دیتے ہیں، آج کی دنیا میں تو حکومتیں اس شعبے کو سبسڈیز یعنی خصوصی فنڈز اور رعایات دے کر بھی مستحکم اور سرگرم رکھتی ہیں تاکہ خوراک کی قلت پیدا نہ ہو اورکوئی انسانی المیہ جنم نہ لے۔

امریکی انتظامیہ فارم کے کاروبار اور زراعت کے لیے سبسڈیز پر سالانہ 30 بلین ڈالر سے زیادہ خرچ کرتی ہے، امریکی حکومت کسانوں کو قیمتوں اور محصولات میں اتار چڑھائو سے بچانے ، ان کی انشورنس، زمین کی بہتری، قرضوں، مارکیٹنگ، تحقیق اور برآمدی فروخت پر سبسڈی دیتی ہے۔ بھارت میں فارم سبسڈیز کی وجہ سے قومی آمدنی میں فارم کی آمدنی کا سب سے زیادہ یعنی 18.17 فیصد حصہ ہے۔ زراعت یورپی یونین کے تمام ممالک کے لیے بھی ایک اہم صنعت ہے اور وہ سبھی مشترکہ زرعی پالیسی کے ذریعے یورپی یونین کے فنڈز حاصل کرتے ہیں۔ یہ فنڈز یورپی ایگریکلچرل گارنٹی فنڈ اور دیہی علاقوں، آب و ہوا کو برقرار رکھنے کی کارروائی اور دیہی ترقی کے لیے یورپی زرعی فنڈ کے ذریعے قدرتی وسائل کے انتظام کے ذریعے کسانوں کی براہ راست مدد فراہم کرتے ہیں۔ 2019ء میں 38.2 بلین یورو کسانوں کو براہ راست ادائیگیوں پر اور 13.8 بلین یورو دیہی ترقی پر خرچ کیے گئے، مزید 2.4 بلین یورو کے ذریعے زرعی مصنوعات کی مارکیٹ کو سپورٹ کیا گیا۔

دنیا بھر میں صرف بر اعظم افریقہ ایک ایسا خطہ ہے جہاں زراعت زوال پذیر ہے یا پھر ہمارے ملک میں جہاں کسان کو کسی طرح کا کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے، انہی سطور میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ کسان کو بیج خریدنے سے لے کر اگائی گئی اجناس فروخت کرنے تک ایک طویل کٹھن اور نہایت تکلیف دہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے تو اسے اچھی پیداوار والے مناسب بیج دستیاب نہیں ہوتے، بیج مل جائیں تو فصل کے لیے زمین تیار کرنا ایک مشکل امر بن جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کو استحکام حاصل نہیں ہے، بیجوں کا بندوبست ہو جائے، زمین تیار ہو جائے، بیج بو بھی دیئے جائیں تو آبپاشی کے لیے پانی کا حصول ایک معمہ بن جاتا ہے، مناسب وقفوں سے وافر بارش ہو جائے تو ٹھیک ورنہ وہی قیمتی ڈیزل یا زیادہ نرخوں والی بجلی استعمال کر کے ٹیوب ویل کے ذریعے زیر زمین پانی نکال کر استعمال کرنا پڑتا ہے۔ آج کے دور میں اس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ اچھی پیداوار کے لیے فصلوں میں کھادوں کا استعمال ناگزیر ہے جبکہ ہمارے ملک میں کھادیں بھی مقررہ ریٹ پر نہیں ملتیں اور کسانوں کو بلیک مارکیٹ سے یعنی زیادہ قیمت ادا کر کے کھادیں خریدنا پڑتی ہیں۔ اگلا مرحلہ ہربی سائیڈز یعنی زرعی ادویات کا ہے جو دیگر بہت سے زرعی لوازمات کی طرح یہاں خالص دستیاب نہیں ہوتیں، ان میں ملاوٹ کی گئی ہوتی ہے، بہرحال ان ساری مشکلات پر کسی نہ کسی طرح قابو پا کر کسان جب فصل تیار کر لیتا ہے تو یہ اس کے لیے ایک نیا دردِ سر بن جاتی ہے۔ اگر میری بات کا یقین نہیں آتا تو آپ ملک کے کسانوں کی موجودہ صورت حال پر ایک نظر ڈال لیں سب کچھ واضح ہو جائے گا کہ باقی دنیا میں زرعی شعبے کی ترقی کے لیے کیا ہو رہا ہے اور ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے۔

ہمارے زرعی شعبے کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ گندم کی فصل پکنے سے محض دو تین ہفتے پہلے لاکھوں ٹن گندم درآمد کر لی گئی اور اب کوئی بھی ملک اور قوم کے ساتھ گئی اس زیادتی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ گندم کے درآمدی سکینڈل کے حوالے سے تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ میں چونکا دینے والی تفصیلات سامنے آئی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ گندم کی غیر ضروری درآمد کے ذمہ دار وفاقی ادارے ہیںجنہوں نے نجی کمپنیوں کو بغیر مناسب جانچ پڑتال کے گندم درآمد کرنے کی اجازت دی اور وزارت خزانہ کے بعض حکام بھی بڑے پیمانے پر درآمد کی جانچ پڑتال میں ناکام رہے۔ پنجاب میں 40.47 لاکھ میٹرک ٹن کے موجودہ ذخائر کے باوجود اضافی 35.87 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی جس سے مصنوعی قلت پیدا ہوئی۔ گندم 2600-2900 روپے فی من کے حساب سے درآمد کی گئی اور 4700 روپے فی من قیمت پر فروخت ہوکی گئی۔ ذرائع نے مزید کہا کہ 10 لاکھ میٹرک ٹن کی درآمد کی اجازت دی گئی تھی لیکن یہ حد سے تجاوز کر گئی تھی۔ ان غلط فیصلوں سے قومی خزانے کو 1ارب ڈالر کا نقصان پہنچا جبکہ اتنی ہی رقم کے حصول کے لیے حکومت پاکستان آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہوئے ہے اور عالمی اقتصادی ادارے کی کڑی شرائط کی وجہ سے پہلے سے مہنگائی کے مارے عوام کی حالت بد تر ہو چکی ہے اور اب کسان مارے مارے پھر رہے ہیں کہ کم قیمت پر ہی سہی ان کی فصل کوئی خرید تو لے، اندازہ لگائیں ہمارے حکمران اس ملک اور قوم کے ساتھ کس کس طرح کے کھیل کھیل رہے ہیں اور شرمندہ بھی نہیں۔

The post کسان کے ساتھ کھیل کب تک؟ appeared first on Naibaat.