Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

مثبت اور منفی محبت

مثبت اور منفی محبت محبت ایک آفاقی جذبہ ہے۔ ہر جاندارمیں یہ جذبہ پایا جاتا ہے۔ جس سے محبت کی جاتی ہے اس کیلئے اِنسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ...

مثبت اور منفی محبت

محبت ایک آفاقی جذبہ ہے۔ ہر جاندارمیں یہ جذبہ پایا جاتا ہے۔ جس سے محبت کی جاتی ہے اس کیلئے اِنسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ خوش رہے، محفوظ رہے اَور محبت کرنے والے سے کبھی ناراض نہ ہو۔ اگر محبت کرنے والا یہ تینوں کام کرنے میں کامیاب ہوجائے تو اس کی محبت خالص ہے ورنہ کسی نہ کسی معاملے میں خام ہے۔

محبت کے دو پہلو ہیں۔ ایک مثبت اَور دوسرا منفی۔ مثبت پہلو کے تحت اِنسان اَپنے محبوب کے لیے ہر وہ کام کرتا ہے جس سے اوپر والے تین کام سرانجام دِیئے جاسکیں۔ منفی پہلو کے تحت وہ ہر اس خطرے کو ختم کردینا چاہتا ہے جس سے اس کا محبوب دوچار ہو۔ اگر کسی سے محبت میں یہ دونوں پہلو ساتھ ساتھ چلتے رہیں تو محبت کامیاب ہے۔ اگر اَیسا نہ ہو تو مسئلے پیدا ہوجاتے ہیں۔

پاکستان کے مسلمان نبی اکرمؐ اَور اَپنے دِین سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ لیکن اِس محبت میں صرف منفی پہلو ہے۔ مثبت پہلو اکثر و بیشتر غائب ہے اَور بعض جگہوں پر نہایت کمزور ہے۔ چنانچہ ہماری محبت خود ہمارے اَور دِیگر اِنسانوں کے لیے عذاب میں تبدیل ہوگئی ہے۔ یہ ہمارے محبوب کی بدنامی اَور ان کے لیے تکلیف کا باعث بن رہی ہے۔ اِس محبت کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ہم قرآن اَور نبی کریمؐ کی تعلیمات پر عمل کریں۔ وہ تمام کام کریں جن کا آپؐ نے حکم دِیاہے اَور ان کاموں سے رْک جائیں جن سے آپؐ نے ہمیں روکا ہے۔ نبی اکرمؐ ہمارے رہنما ہیں۔ رہنما کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ پیروکار اس کی واقعی پیروی کریں اَور اس طرح سے چلیں جیسا کہ اْنھیں حکم دِیا جارہا ہے۔ اگر پیروکار اَپنی مرضی چلائیں، اَپنی من مانیاں کریں تو رہنما کیلئے بڑی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ مزید یہ کہ رہنما کو دکھ اَور اَفسوس بھی ہوتا ہے کہ میری ساری محنت و کاوِش کے باوجود پیروکاروں نے کچھ نہ سیکھا۔

اَب اگر ہم غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ ہم نے قرآن اَور رَسولؐ کی بیشتر تعلیمات کو پس پشت ڈال دِیا ہے۔ اِن تعلیمات میں جہاں تک عبادات کا حصہ ہے، جو تمام تعلیمات کا دس فی صد بنتا ہے، اس پر بھی ہم میں سے محض بیس فی صد لوگ ہی عمل کرتے ہیں۔ اسی فی صد لوگ نماز سے بے بہرہ ہیں۔ رمضان کے روزے اکثر لوگ رکھتے ہیں لیکن وہ روزہ بھی محض فاقہ ہوتا ہے کیونکہ بے اِیمانی، چوربازاری، ناجائز منافع خوری، جھوٹ، فریب، دغابازی اسی طرح چلتے رہتے ہیں۔ صحیح والا روزہ بھی بیس فی صد سے زائد لوگ نہیں رکھ پاتے۔ زکوٰۃ کے معاملے میں ہم لوگ کافی حد تک محتاط ہیں یا کام از کم مجھے اَیسا لگتا ہے۔ چنانچہ تقریباً پچاس فی صد لوگ نہایت ایمان داری سے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ حج کا شوق بھی ہم میں خوب پایا جاتا ہے۔ چنانچہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ہر سال حج پر جاتی ہے۔ لیکن حرم شریف اَور احرام کی جو پابندیاں ہیں وہ ہم سے پوری نہیں ہوتیں۔ لہٰذا حج کے موقع پر سب سیزیادہ بدنظم، لڑنے جھگڑنے والے، موقع ملنے پر بے اِیمانی کرنے والے ہمارے ملک سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ حج سے واپسی پر کھجوروں اَور آبِ زم زم سے لدے پاکستانیوں کو پی آئی اے کے عملے کو زائد سامان لے جانے کے لیے رِشوت دیتے تو میں نے خود دیکھا ہے۔

اگر ہم معاملات والی ہدایات پر آئیں جو کہ کل تعلیمات کا نوے فی صد حصہ ہیں تو ہماری حالت بہت پتلی ہے۔ دنیا کا کون سا برا کام ہے جو پاکستان میں نہ ہوتا ہو؟ بے اِیمانی میں ہم دنیا کے 180 ممالک میں سے 133 نمبر پر ہیں۔ گویا دنیا کے 132 ممالک یعنی 73 فی صد ممالک ہم سے اِیمان داری میں بہتر ہیں۔ اِن 73 فی صد ممالک میں بیشتر غیرمسلم ہیں۔ اِن میں اِیمان داری میں سب سے اْوپر ڈنمارک ہے۔ پھر فن لینڈ، نیوزی لینڈ، ناروے، سنگاپور اَور سویڈن ہیں۔ گویا دْنیا کے اِیمان دار ترین ممالک میں سے کوئی بھی مسلم نہیں ہے۔ اِس سے کیا پتا چلتا ہے؟ کیا اِس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ ہمارا دِین ہمیں اِیمان داری کی تعلیم نہیں دیتا؟ ہرگز نہیں۔ تو پھر یہی بات ہوسکتی ہے کہ ہم دِین پر عمل نہیں کرتے۔ تکبر اَور رعونت میں بھی مسلمان بہت اونچے درجے پر ہیں۔ اَپنے آپ کو بالکل ٹھیک سمجھنا اَور تمام دِیگر افراد کو غلط اَور قابل گردن زدنی جاننا ہمارا خاصہ بن چکا ہے۔ یہ دونوں بیماریاں پاکستان میں بدرجہئ اتم پائی جاتی ہیں۔ لیکن پھر بھی دعویٰ ہے حب رسولؐ کا! کون ہے جو اِس زبانی دعوے کو سچ مانے گا؟
فی محبت میں البتہ ہم بہت آگے ہیں۔ اگر کسی شخص کو اَپنی اَولاد سے محبت ہے تو وہ اسے محفوظ رکھنے کے لیے خود طاقت ور بنے گا اَور بچوں کے لیے محفوظ گھر بنوائے گا جہاں وہ غلط لوگوں سے محفوظ رہ سکیں۔ اگر کوئی شخص اَپنی اَولاد کو گلی میں کھڑا کردے اَور جو اس کے بچے پر غلط نظر ڈالے، اسے گولی سے اڑا دے تو یہ منفی محبت ہے۔ ہم مسلمانوں نے اَپنے اَعمال سے دنیا کے لوگوں کو اِسلام اَور نبی اکرمؐ کا مذاق اڑانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ ہماری دولت پرستی، عیاش طبیعت اَور اِنتہا پسندی نے ساری دنیا میں اِسلام کو بدنام کیا ہے۔ اَب ہم ان لوگوں کے جانی دْشمن بن گئے ہیں جو ہمارے اَعمال کی وجہ سے ہمیں کم تر اَور غلط سمجھتے ہیں۔ لوگوں کی زبان بند کرنے کاایک طریقہ یہ ہے کہ ہم اَپنے افعال درست کرلیں۔ لیکن یہ بیحد مشکل کام ہے۔ یہ ہم سے نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہم نے آسان راستہ اَپنایا ہے کہ وہ زبان ہی ہمیشہ کیلئے خاموش کردی جائے۔ ہم کتنے لوگوں کو ماریں گے؟ جتنے مریں گے، ان سے دگنے پیدا ہوجائیں گے۔

دِین اِسلام اَور نبی اکرمؐ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم دنیا پر یہ ثابت کریں کہ اِن کی تعلیمات بہترین ہیں اَو جو لوگ ان تعلیمات پر عمل کرتے ہیں وہ بہترین لوگ ہوتے ہیں۔ جب تک یہ راستہ نہیں اَپنایا جائے گا ہم یونہی غصے سے پھنکارتے، نعرے مارتے، سینہ کوٹتے رہیں گے اور بدنامی کے گڑھے میں نیچے سے نیچے گرتے جائیں گے۔ یہ عذاب صرف دنیا تک محدود نہیں ہے۔ آخرت میں بھی جہنم منہ پھاڑے ہمارا اِنتظار کررہی ہوگی۔ جو شخص نبی اکرمؐ کی ایک سنت بھی ترک کرے، اس کے لیے جنت میں کوئی جگہ نہیں۔ اَب آپ سیرتِ پاک کا مطالعہ کریں اَور مسلمانوں کے حالات دیکھیں۔ خود ہی پتا چل جائے گا کہ کتنے فی صد مسلمان جنت کے لیے کوالی فائی کررہے ہیں۔

The post مثبت اور منفی محبت appeared first on Naibaat.