Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

بچوں کے استحصال پر ایک نظر

بچوں کے استحصال پر ایک نظر بچوں کا جنسی استحصال پوری دنیا میں ایک انتہائی پریشان کن مسئلہ ہے خصوصاً جب یہ مذہبی سیاق و سباق میں ہوتا ہے، تو...

بچوں کے استحصال پر ایک نظر

بچوں کا جنسی استحصال پوری دنیا میں ایک انتہائی پریشان کن مسئلہ ہے خصوصاً جب یہ مذہبی سیاق و سباق میں ہوتا ہے، تو یہ متاثرین اور معاشرے کے لیے صدمے کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ مذہبی ادارے، جنہیں سکون اور تحفظ کے مقامات کے طور پر دیکھا جاتا ہے، وہاں بچوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات انتہائی تشویشناک ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس قسم کے واقعات کی تعداد تو بہت زیادہ ہے لیکن معاشرتی دبائو یا قانونی پیچیدگیوں کے باعث زیادہ تر کیسزتو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے پھیلاؤ، اسباب اور مضمرات کے ساتھ ساتھ ان سنگین خلاف ورزیوں کو روکنے اور ان سے نمٹنے کی کسی بھی سطح پر کوئی موثر کوشش نہیں کی جا رہی۔
مذہبی اداروں میں بچوں کے ساتھ نہ صرف جنسی استحصال کے واقعات بہت زیادہ رونما ہوتے ہیں بلکہ ان پر وحشیانہ جسمانی تشدد کے واقعات کا گراف بھی کافی اونچا ہے۔ اگر کوئی معاملہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتا ہے تو حکومت بھی اس پر ایکشن لے لیتی ہے اور مختلف این جی اوز بھی معاملہ پر آواز اٹھاتی ہیں لیکن افسوس کہ اس قسم کے معاملات پر مستقل اور مضبوط کنٹرول نہ تو کہیں نظر آتا ہے اور نا ہی ایسا کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کہیں نظر آتی ہے۔
دیکھا جائے تو اس سلسلہ میں حکومت کی نالائقی اور نااہلی کے علاوہ بھی کئی عوامل ایسے ہیں جو نہ صرف بچوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کو کنٹرول کرنے میں رکاوٹ ہیں بلکہ اس قسم کی صورتحال کی حوصلہ افزائی اور فروغ میں معاون ثابت ہو رہے ہیں، ان میں مذہبی رہنماؤں کی جانب سے اختیارات کا غلط استعمال، مذہبی مقامات پر انتظامی معاملات میں رازداری اور شفافیت کا فقدان اور مذہبی شخصیات کی
آئیڈیلائزیشن شامل ہے۔ مزید برآں، ثقافتی روایات، بیرونی انکوائری کے خلاف مزاحمت، اور ادارے کی ساکھ کے تحفظ پر گمراہ کن زور جیسے عوامل بدسلوکی کے چکروں کو جاری رکھتے ہیں۔
مذہبی ماحول میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی صورت میںلواحقین کو مستقل یا طویل مدتی نفسیاتی صدمے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایمان اور اعتماد کے مسائل کے ساتھ جدوجہد کرنا پڑتی ہے، اور اس کے علاوہ اگر معاملہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو رپورٹ کر دیا جائے تو انصاف اور مدد کے حصول میں بے شمار رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مذہبی ماحول میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی سے نمٹنے کے لیے کثیر جہتی طریقوں کی ضرورت ہے۔جن میں سب سے پہلے، مذہبی اداروں کے اندر شفافیت اور جوابدہی کے کلچر کو فروغ دینا انتہائی ضروری ہے،یہاں مضبوط حفاظتی پالیسیوں کو نافذ کرنا چاہیے، مولوی حضرات اور دیگر عملے کو جامع تربیت فراہم کی جانی چاہیے اور نگرانی کے آزاد طریقہ کار کا قیام کیا جانا چاہیے۔
مذہبی رہنماؤں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، دماغی صحت کے پیشہ ور افراد، اور کمیونٹی تنظیموں کے درمیان تعاون بھی بچوں کے استحصال کی مؤثر روک تھام میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
ویسے تو بچوں کا جنسی استحصال کوئی نئی بات نہیں لیکن حال ہی میں فیصل آباد کے علاقہ میں پیش آنے والے واقعہ نے سماجی تفکرات میں اضافہ کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت، عدلیہ کے اختیارات اور حکومت کی رٹ کا بھی پول کھول کر رکھ دیا ہے۔
واقعات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ فیصل آباد کے ایک علاقہ میں ایک بچہ دینی تعلیم کے لیے گھر سے نکلتا ہے اور وقت پر واپس نہیں آتا۔ اس کا والد اسے تلاش کرتے ہوئے مدرسہ سے ملحقہ ایک گھر میں پہنچتا ہے جہاں معلم صاحب بچے کے ساتھ برہنہ حالت میں پائے جاتے ہیں۔ معلم صاحب، جو ایک مذہبی تنظیم کے سرگرم کارکن بھی ہیں، اس صورتحال میں شرمندہ ہونے کے بجائے بچے کے والد پر کلاشنکوف تان لیتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہوئے فرار ہو جاتے ہیں۔ بچے کا والد متعلقہ تھانہ میں واقعہ کا مقدمہ درج کراتا ہے اور تین عدد گواہان بھی پیش کرتا ہے۔ ملزم گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
یہاں سے کہانی ایک ایسا موڑ لیتی ہے جو پوری قوم کے لیے شرمندگی کا باعث ہے اور حکومت کے لیے تو ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
ایک بڑے مذہبی راہنما لاہور سے اٹھتے ہیں اور فیصل آباد کے علاقہ تاندلیاں والا جا پہنچتے ہیں۔ وہاں جا کر بقول ان کے اپنے وہ اس واقعہ کی تفتیش کرتے ہیں اور ملزم کو بے گناہ پاتے ہیں۔ پھر وہ بچے کے والد سے ملتے ہیں اور اسے جانے کیا سبق پڑھاتے ہیں کہ وہ غریب آدمی فوری طور پراعلان کر دیتا ہے کہ اس نے مقدمہ غلط فہمی کی بنیاد پر درج کرایا تھا اور اب اس نے اپنے ملزم کو اللہ واسطے معاف کر دیا ہے۔
اس ساری صورتحال میں پولیس اور نہ ہی میڈیا مولانا اتبسام الٰہی ظہیر صاحب سے سوال کرنے کی جرأت کرتا ہے کہ بھائی صاحب آپ کس بنیاد پر ایک کریمنل کیس کی تفتیش کرتے پھرتے ہیں اور کس قانون کے تحت آپ مدعی کو اس بات پر راضی کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے واسطے ملزم کو معاف کر دے۔
مذہبی ماحول میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کا معاملہ فوری توجہ اور ٹھوس کارروائی کا متقاضی ہے۔اگر اسی طرح مذہبی شخصیات جرائم کی مرتکب ہوتی رہیں اور راہنما حضرات ان کی مدد کو پہنچتے رہے تو پھر تو معاشرے کے ڈسپلن کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ عوام اور حکومت مل کر اس نظام کی کمزوریوں اور ناکامیوں کا مقابلہ کریں۔ بچوں کے ہر سطح پر تحفظ کی ذمہ داری صرف حکومت یا والدین کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی ہے لہٰذاہمیں مل کر ہر بچے کے وقار اور حقوق کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ مذہبی مقامات حقیقی معنوں میں دینی تعلیم، ہمدردی اور تحفظ کے لیے کام کریں۔

The post بچوں کے استحصال پر ایک نظر appeared first on Naibaat.