Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

یہاں کون پوچھتا ہے

یہاں کون پوچھتا ہے بزم طارق کے میزبان طارق عزیز نے انٹرویو میں بتایا کہ وہ ایک سفر سے وطن لوٹ رہے تھے ،انکے ہم سفر نے مغربی دنیا کے قصیدے پ...

یہاں کون پوچھتا ہے

بزم طارق کے میزبان طارق عزیز نے انٹرویو میں بتایا کہ وہ ایک سفر سے وطن لوٹ رہے تھے ،انکے ہم سفر نے مغربی دنیا کے قصیدے پڑھناشروع کئے ،اور زور اس بات پر تھا کہ لوگ کیسے قانون کی پابندی کرتے ہیں، ان کے اجتماعی اقدامات کس قدر قابل رشک ہوتے ہیں مرحوم نے بتایاکہ جونہی ائر پورٹ سے وہ مسافر باہر نکلا اس نے سگریٹ سلگائی اور کش لگاتا رہا بقیہ حصہ فرش پر پھینک دیا، طارق عزیز اس سے مخاطب ہوئے جہاز میں آپ قانون کی پاسداری پر لیکچر دیتے رہے یہ حرکت کس زمرے میں آتی ہے، وہ گویا ہوئے کہ’’ یہاں کون پوچھتا ہے‘‘۔

راقم کو فیصل آباد میں پتنگ کی ڈورکا شکار ہونے والے نوجوان کی المناک موت سے یہ واقعہ یاد آیا ہے، بے حسی کی انتہا ہے، جب وزیراعلیٰ پنجاب اپنے والد محترم کے ساتھ متاثرہ خاندان سے ملاقات کررہی تھیں اس دوران بھی یہ کھیل جاری رہا اخباری اطلاعات ہیں کہ سمندری اور کینال روڈ پر دوسرا نوجوان گلے پر ڈور لگنے سے زخمی ہوگیا۔

اس بدعت کا آغاز روشن خیال طبقہ نے لاہور سے کیا، وہ عہد تھا جب لاکھوں افراد بسنت کے نام پر تفریح منانے لاہور کارخ کرتے، آتش بازی، ہوائی فائرنگ، ڈھول کی تھاپ پر رقص اس کے بنیادی لوازمات تھے، بعد ازاں اس تفریح نے خونی کھیل کا روپ دھار لیا، محتاط اندازے کے مطابق اب تلک سیکڑوں افراد ہلاک اور بہت سے زخمی ہو چکے ہیں، یہ پہلاواقعہ نہیں ہے، تاہم ہر بار سرکار کا رد عمل ایک جیساہی رہا ہے، دفعہ 144 کا نفاذ اور پکڑ دھکڑ، پولیس ملازمین کی معطلی وغیرہ۔ البتہ یہ کھیل اب خلاف قانون ہے۔

کروڑوں کی آبادی میں نہ تو قانون نافذ کرنے والے ادارے ہر گلی، محلہ اور فرد پر نظر رکھ سکتے ہیں نہ ہی یہ ممکن ہے، اس سانحہ کے بعد سوشل میڈیا پر اسکی روک تھام کے حوالہ سے عملی مشق کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، ہماری بدقسمتی ہے کہ ہر سنگین واقعہ کے بعد سماج کے افراد اور قانون متحرک ہوتے ہیں، آگاہی مہم چلائی جاتی ہے، سب کچھ سامنے ہوتا ہے تو مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، لاقانونیت اس بات کی
مصداق بنتی ہے کہ ”یہاں پوچھتا کون ہے“ ہر ادارہ اور شہری کم از کم اپنی بساط تک ذمہ داری ادا کرے تو بہت سے حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔

جیسا یہ دلخراش واقعہ سڑک پر پیش آیا ہے اس طرح کے حادثات ہر روز تھوڑی سے لاپروائی سے رونما ہوتے ہیں، ہم سب شاہد ہیں، گنے کے سیزن میں ٹرالیوں کی آمد و رفت انتہائی غیر محفوظ ہوتی ہے، یہی رویہ بھوسہ توڑی کی ترسیل میں اپنایا جاتا ہے، رات کی تاریکی میں یہ ’’واردات‘‘ ڈالی جاتی ہے تا کہ قانون کی نظر سے بچ سکیں، کیا مالکان یہ نہیں جانتے انکی روش کسی کی جان لے سکتی ہے، اگر اس کا شکار ہونے والا ان کے گھر کا فرد ہو تو پھر بھی وہ ایسا کریں گے؟ سامان لوڈ کراتے وقت یہی بات ذہن نشین کر لیں تو شائد کوئی حادثہ نہ ہو۔

غلط سمت میں گاڑی، موٹر سائیکل چلانے والے اکثر حادثات کا شکار ہوتے ہیں؟ اسی ماہ رمضان میں ملک بھر میں150 سے زائد افراد لقمہ اجل بنے، ریسکیو ذرائع بتاتے ہیں کہ 9059 موٹر سائیکل جبکہ 698 رکشوں والوں کے تھے یہ اعداد و شمار دس دنوں کے ہیں، ہمارا وتیرہ بن چکا ہے کہ ہم ہر الزام سرکار پر دھر کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں، ناجائز تجاوات کے جرم کا ارتکاب کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ حادثہ بھی ہو سکتا ہے، اس کے باوجود بازار میں راہ گیر کو چلنے کی جگہ تک نہیں ملتی ہے۔ سابقہ موسم گرما میں ایک نجی کمپنی کی بس موٹر وے پر حادثہ کا شکار ہو گئی، نتیجہ کے طور پر ہلاکتیں ہوئیں یہ راولپنڈی سے سرگودھا جا رہی تھی، بعد ازاں معلوم ہوا، اسکی بریک میں نقص تھا مگر ڈرائیور نے غفلت کا مظاہرہ کیا یہ سوچ کر گاڑی چلا دی کہ اسکی مرمت سرگودھا جا کر کرالیں گے مسافروں سمیت وہ موت کے منہ میں چلا گیا، یہاں سرکار کیا کرے؟

چند سال قبل ایک فوکر طیارہ ملتان سے پرواز کے بعد فوراً گر کر تباہ ہو گیا، ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میں خرابی کا پہلے سے علم تھا مگر معمولی نوعیت کی قرار دی جہاز روانہ کر دیا، 36 برس میں پیش آنے والا یہ پانچواں حادثہ تھا، مجموعی طور پر 168 افراد مذکورہ طیاروں کی نذر ہو گئے پہلا حادثہ 1970 میں پیش آیا تھا۔ اگر پہلے حادثہ کے بعد ذمہ دار سزا کے عمل سے گذر چکے ہوتے، امکان غالب ہے کہ بعد کے حادثات میں مسافر ابدی نیند نہ سوتے۔ ریلوے حادثات کے پیچھے بھی یہی لاپروائی کار فرما ہے۔

عوام اور والدین اپنی اپنی ذمہ داریوں سے صرف نظر نہ کریں اسی طرح ادارے فرائض منصبی میں کوتاہی نہ کریں تو سماج میں ہر سطح پر اصلاح احوال ممکن ہے، نوجوان کی ہلاکت پر عوام کے احتجاج نے تاثر دیا کہ دکھ سب کا سانجھا ہے، اس لئے کہ یہ سانحہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا لیکن بہت سے بچے، افراد متاثرہ، دودھ، خوراک، ملاوٹ شدہ، غیر معیاری، اشیائے خور و نوش سے دھیرے دھیرے موت کے منہ میں چلے جا رہے ہیں، کیا یہ جرم دھات کی ڈوری سے گلہ کٹنے سے کم ہے؟ عوام اور ادارے اس پر آنکھیں بند کیے رکھتے ہیں، انکے جذبات ایسی اموات پر یکسر مختلف ہوتے ہیں، زندہ معاشروں میں ہر جرم کا خاتمہ تبھی ممکن ہے جب عوام بھی اس سے برابر نفرت کرے، ہماری غفلت کا نتیجہ ہے کہ اس قماش کے لوگ دیدہ دلیری سے ہر گلی، محلہ، شہر میں زہر آلود چیزیں بنا رہے ہیں، وہ بڑے مافیا کا حصہ ہیں جن پر ہاتھ ڈالنا بغیر عوامی طاقت کے ممکن نہیں رہا۔

جنہیں یہ شکوہ ہے کہ روزگار کے مواقع کم ہیں، آئی ٹی انڈسٹری نے گھر بیٹھے یہ نعمت عطا کی ہے، وہ شہر جہاں سٹریٹ کرائم زیادہ ہے وہاں الخدمت فائونڈیشن نے ’’بنو قابل‘‘ پروگرام کے تحت بلا امتیاز بے روزگاروں کو کمانے کے قابل بنایا ہے اس کے باوجود تعلیم یافتہ ڈاکو چند روپے اور قیمتی موبائل کی خاطر کسی کی زندگی کا چراغ گل کرتے ہیں کسی گھر کا سہارا چھینتے ہیں، تو سمجھ لیںکہ یہ فعل بھی اُس دھوکے کی مانند ہے جو لوٹ کے دھوکہ دینے والے کے پاس آتا ہے۔

بندوق کی نوک پر زندگی چھیننے والے یہی سمجھ کر جرم کرتے ہیں کہ ’’یہاں کون پوچھتا ہے‘‘، موجود قوانین کی روشنی میں سرکار جرائم کی سرکوبی کی اپنے تئیں سر توڑ کاوش کرتی ہے تاہم بلا امتیاز بشمول اشرافیہ سخت ترین سزائوں کے نفاذ سے یہ تاثر لازمی طور پر اب زائل ہونا چاہیے کہ یہاں کون پوچھتا ہے۔

The post یہاں کون پوچھتا ہے appeared first on Naibaat.